آیات 1 - 3
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الفتح

اس سورہ کا نام ابتداء میں مذکور آیت اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا سے ماخوذ ہے۔

زمان نزول: اس سورۃ المبارکہ کا زمان نزول بالاتفاق سنہ۶ ہجری ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد راستے میں نازل ہوئی ہے اس لیے یہ سورۃ مدنی ہے اور ہر وہ سورۃ جو ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے، مدنی شمار ہوتی ہے خواہ خود مدینہ میں نازل نہ ہوئی ہو۔

فتح مبین سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ جسے سطحی سوچ والے شکست سمجھ رہے تھے اسے اللہ تعالیٰ نہ صرف فتح فرماتا ہے بلکہ فتح مبین نمایاں فتح فرمایا ہے۔ اس صلح کے بعد امن قائم ہوتا ہے اور امن کی فضا میں اسلام کا پیغام ہر سو پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ دو سال بعد چودہ سو کا لشکر دس ہزار کی تعداد میں مکہ میں فاتحانہ داخل ہو جاتا ہے۔

مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب آیت اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا نازل ہوئی تو فرمایا:

ولقد انزلت الی آیۃ ھی احب الیّ من الدنیا کلھا۔ ( مجمع البیان )

میری طرف ایک آیت نازل ہوئی ہے جو میرے لیے پوری دنیا سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

۶ہجری ذوالقعدہ کے مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہزار چار سو افراد کی معیت میں بقصد عمرہ مدینے سے مکے کی طرف روانہ ہوئے۔

اس سے پہلے آپ نے اصحاب کو وہ خواب بھی سنایا تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ تشریف لے جاتے اور عمرہ بجا لاتے ہیں۔

ادھر قریش والوں کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ ایک طرف تو ذوالقعدہ جیسے حرمت کے مہینے میں عمرہ یا حج سے روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے، دوسری طرف اگر مسلمانوں کا اتنا بڑا قافلہ مکے میں داخل ہو گیا تو اس سے قریش کا سارا رعب ختم ہو جائے گا۔

ادھر مسلمانوں کا غیر مسلح قافلہ حدیبیہ پہنچ گیا اور قریش کے ساتھ ایلچیوں کا تبادلہ شروع ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان کو قریش کے پاس پیغام دے کر بھیجا کہ ہم جنگ کے لیے نہیں آئے ہیں بلکہ بیت اللہ کی زیارت کے لیے احرام باندھ کر قربانی کے اونٹوں کے ساتھ آئے ہیں۔ اسی دوران خبر اڑی کہ حضرت عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اس سے جنگ کا خطرہ لاحق ہو گیا جب کہ مسلمان جنگ کے لیے تیار ہو کر نہیں آئے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب اصحاب کو جمع کیا اور جنگ سے فرار نہ ہونے پر سب سے بیعت لی جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے اور جنگ حنین میں بھاگنے والوں کو حضرت ابن عباس اسی بیعت کا حوالہ دے کر بلاتے تھے۔

بعد میں حضرت عثمان کے قتل کی خبر غلط نکلی۔ قریش نے صلح پر آمادگی ظاہر کی چونکہ وہ نہ تو حرمت کے مہینے میں جنگ لڑ سکتے تھے، نہ مکہ میں عمرہ کے لیے داخل ہونے کی اجازت دے سکتے تھے اس لیے قریش والوں کے لیے صلح ناگزیر ہو گئی تھی۔

اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی یہی منشا تھی کہ صلح کو قریش کے لیے ناگزیر بنا دیا جائے۔

طویل بحث کے بعد درج ذیل شرائط پر حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک سے صلح نامہ کی تحریر کیا جانے لگا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا لکھو: بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ تو قریش کے نمائندہ سہیل بن عمرو نے کہا: ہم اس عبارت کو نہیں جانتے۔ لکھو بسمک اللّٰھم تو حضورؐ نے فرمایا: لکھو: بمسک اللّٰھم۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: لکھو یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ۔ تو سہیل بن عمرو نے کہا: ہم اگر آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو آپ سے جنگ نہ کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ رسول اللہ کو مٹانے کے لیے کہا تو حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا: میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے ہاتھوں سے مٹایا۔ پھر فرمایا: یا علی! آپ کے ساتھ بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آنے والا ہے۔

چنانچہ جنگ صفین میں جب معاویہ کے ساتھ صلح نامہ لکھنے کی نوبت آئی اور لکھا گیا کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو امیرالمومنین اور۔۔۔۔ تو معاویہ کے نمائندے نے کہا: اگر ہم آپ کو امیرالمومنین مانتے تو آپ کے ساتھ جنگ نہ کرتے۔ چنانچہ لفظ امیرالمومنین مٹا دیا گیا۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

صلح نامے کا مضمون یہ تھا:

i۔ دس سال تک جنگ بند رہے گی۔

ii۔ قریش کا جو شخص بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جائے گا اسے واپس کرنا ہو گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس جائے گا اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔

iii۔ قبائل میں سے کوئی قبیلہ قریش کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے۔

iv۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سال بغیر عمرہ کے واپس جائیں گے، آیندہ سال عمرہ کے لیے آ سکیں گے، مکہ میں صرف تین دن قیام کریں گے اور غیر مسلح آئیں گے۔

مسلمان ان شرائط کو اپنی شکست تصور کر کے مضطرب تھے۔ حضرت عمر کو تو رسول کی رسالت پر شک گزرا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ پر معترضانہ سوال اٹھایا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے یہ جواب ملتا ہے:

یا ابن الخطاب! انی رسول اللّٰہ لن یضیعنی ابداً۔

اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں۔ اللہ مجھے کبھی ناکام نہیں کرے گا۔

اس جواب کے باوجود وہ فرجع وھو متغیظ غم و غصے کی حالت میں پلٹے:( تفسیر طبری ۲۶: ۴۵)

یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ اس خواب کا کیا مطلب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا ہے۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو یہ سورت نازل ہوئی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾

۱۔ (اے رسول) ہم نے آپ کو فتح دی، ایک نمایاں فتح۔

لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ یَہۡدِیَکَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ تاکہ اللہ آپ کی (تحریک کی) اگلی اور پچھلی خامیوں کو دور فرمائے اور آپ پر اپنی نعمت پوری کرے اور آپ کو سیدھے راستے کی رہنمائی فرمائے۔

وَّ یَنۡصُرَکَ اللّٰہُ نَصۡرًا عَزِیۡزًا﴿۳﴾

۳۔ اور اللہ آپ کو ایسی نصرت عنایت فرمائے جو بڑی غالب آنے والی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا: اس فتح سے کیا فتح مکہ مراد ہے یا صلح حدیبیہ یا کوئی اور فتح، مفسرین میں اختلاف ہے۔ بعض مفسرین اس سے فتح مکہ مراد لیتے ہیں لیکن ہمارے نزدیک فتح مبین سے مراد یہی صلح ہے جس سے فتح مکہ بھی ممکن ہوئی۔

اس صلح میں فتح مبین کا نکتہ دس سالہ جنگ بندی میں مضمر ہے۔ وہ قریش جنہوں نے ایک سال پہلے جنگ احزاب کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑی، جس نے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس صلح میں اسلامی ریاست کے وجود کا اعتراف کیا گیا اور دیگر عرب قبائل کے لیے بھی یہ موقع فراہم کر دیا گیا کہ ان دونوں طاقتوں میں سے جس کے چاہیں حلیف بن سکتے ہیں۔

جنگ بندی اور اسلامی ریاست کے اعتراف کی وجہ سے ذیلی فوائد حاصل ہوئے:

i۔ قریش کی طرف سے امن حاصل ہونے سے اسلامی ریاست کو دیگر مخالف طاقتوں پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع مل گیا۔ چنانچہ صلح کے تین ماہ بعد خیبر فتح ہو گیا اور دیگر یہودی علاقے اسلام کے زیر تسلط آگئے۔

ii۔ امن قائم ہونے اور اسلام کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیے جانے کی وجہ سے اسلام کو پھلنے پھیلنے کا موقع مل گیا۔ امن کی فضا میں اسلامی پیغام پہنچانا اور لوگوں کے لیے اس کا سمجھنا ممکن ہو گیا۔ امن کی وجہ سے مدینہ کی طرف عرب وفود کا آنا شروع ہو گیا اور جن علاقوں سے خطرات تھے ان کی طرف فوجی دستے روانہ کرنا ممکن ہوا۔ چنانچہ دو سالوں میں ۱۴۰۰ کا لشکر دس ہزار کی تعداد میں مکہ میں داخل ہو گیا۔

iii۔ مسلمانوں کو عمرہ اور بیت اللہ کی زیارت کا حق مل گیا۔ اس طرح اسلام مشرکین کی نظر میں بھی ایک تسلیم شدہ مذہب کے طور پر ابھرا۔

iv۔ اس جنگ بندی اور امن کی فضا میں اسلامی قوانین کا نفاذ، اسلامی معاشرے کا قیام اور اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیادیں مستحکم کرنے کا موقع میسر آ گیا۔

v۔ اس صلح کے بعد منافقین کی کمر ٹوٹ گئی جو اس خیال میں خوش تھے کہ یہ لشکر موت کے منہ میں جا رہا ہے۔

اس طرح اس صلح سے اسلام کو مادی، معنوی، سیاسی، حربی اور نظریاتی فوائد حاصل ہوئے۔ درحقیقت صلح حدیبیہ کے دن ہی مکہ فتح ہو گیا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے فتح مبین قرار دیا۔

۲۔ لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس فتح مبین سے نوازنے کے چند ایک علل و اسباب کا ذکر فرمایا: ان میں سب سے پہلا سبب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گزشتہ اور آیندہ ذَنُوۡب کی مغفرت ہو جائے۔

یہاں دو سوال اہم ہیں: پہلا سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معصوم عن الذنوب ہیں۔ یہاں ذنُوب کی مغفرت کا کیا مطلب ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ فتح مبین اور ذنُوب کی مغفرت میں کیا ربط ہے؟

مذکورہ سوالوں کے چند ایک جواب دے گئے ہیں ان میں سے صرف بعض جوابات کا ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

ذنب یعنی گناہ سے مراد وہ باتیں ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنی نظر میں کوتاہی اور تقصیر سمجھتے تھے اگرچہ وہ فی الواقع گناہ یا تقصیر نہ تھیں لیکن یہ جواب درست نہیں ہے چونکہ اگر فی الواقع گناہ یا تقصیر نہیں ہے تو اللہ کی طرف سے معاف کرنے کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔

ii۔ یَغفر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ گناہ کی نوبت ہی نہیں آنے دیتا چونکہ غفر ستر، پردہ حائل ہونے کے معنوں میں ہے لہٰذا معصوم کے لیے غفر ستر کے معنوں میں ہو گا کہ گناہ اور معصوم کے درمیان ستر حائل ہو گا اور غیر معصوم کے لیے گناہ اور عذاب کے درمیان ستر حائل ہونے کو مغفرت کہتے ہیں لیکن یہ جواب درست نہیں چونکہ یہ بات معصوم کے لیے ہمیشہ موجود ہے۔ اس کا فتح مبین کے ساتھ ربط نہیں بنتا۔

iii۔ ذنب سے مراد وہ ہے جسے مشرکین گناہ سمجھتے تھے کہ محمدؐ نے ہمارے درمیان پھوٹ ڈال دی۔ ہمارے آباء و اجداد کا مذہب چھوڑ کر نیا مذہب نکالا وغیرہ۔ فتح مبین کی وجہ سے اس مزعومہ گناہ کا اللہ نے ازالہ کیا۔ یہ جواب حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے۔

iv۔ ذنب سے مراد وہ پریشانی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی کامیابی کے بارے میں لاحق تھی۔ فتح مبین سے یہ پریشانی دور ہو گئی۔

اس جواب میں کمزوری یہ ہے کہ ذنب (گناہ) کہہ کر پریشانی مراد لی گئی جو بعید ہے۔

v۔ گناہ سے مراد وہ کوتاہی اور قصور ہے جو آپ کی اسلامی تحریک میں وقتاً فوقتاً سرزد ہوتی رہی۔ یہ قصور منافقین، مریض دل اور ضعیف الایمان لوگوں کی طرف سے سرزد ہوتے رہے۔ ان لوگوں کی وجہ سے اسلامی تحریک کو ہمیشہ مشکلات درپیش رہی ہے۔ فتح مبین کی وجہ سے ان کوتاہیوں کی تلافی ہو گئی اور آیندہ اس قسم کی کوتاہیوں سے اسلامی تحریک کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

اس جواب پر یہ سوال آتا ہے کہ کوتاہی آپ کی تحریک کی ہے اور نسبت دی گئی خود آپؐ کی طرف؟

جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس قسم کے خطابات زیادہ ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

نَزَلَ الْقُرآنُ بِاِیَّاکِ اَعْنِی وَ اسْمَعِی یَا جَارَۃُ۔ (الکافی۔۲: ۶۳۰)

قرآن، بات کسی سے، سمجھانا کسی کو مقصود ہے (سر دلبران در حدیث دیگران) پر نازل ہوا ہے۔

چنانچہ قرآن میں ہے:

لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ۔۔۔ (۳۹ زمر:۶۵)

اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضرور حبط ہو جائے گا۔

اس توجیہ سے اتمام نعمت، صراط مستقیم کی ہدایت اور نصرت کے وعدوں کے ساتھ ربط بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ان کوتاہیوں کے دور ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نعمت پوری ہونے، راہ راست کی رہنمائی اور فتح و نصرت کی راہ ہموار ہو گئی۔

اس توجیہ سے معاف اور فتح مبین میں ربط بھی واضح ہو گیا۔

اقول: مع ذلک کلہ یبدو ان ھناک سراً غامضا لم یکشف بعد فالاحسن للانسان ان یعترف بعجزہ عن تفسیر ھذہ الآیۃ۔

۳۔ وَ یُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ: اس فتح مبین سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم نے اس لیے نوازا ہے تاکہ آپؐ پر اللہ کی نعمت پوری ہو جائے۔ کفر و شرک پر اسلام کا غلبہ ہونے سے زمین پر اللہ کی شریعت کا نفاذ ہو گا جس میں دین و دنیا دونوں کی نعمتوں کی فراوانی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے خصوصی نعمت یہ ہے کہ آپؐ کے مبارک ہاتھوں سے قیامت تک کے لیے دین توحید کو دوام حاصل ہو گیا۔

۴۔ وَ یَہۡدِیَکَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا: دین توحید کے غلبے، پائیداری اور دشمن کی نابودی کے لیے کامیابی کی راہوں کی رہنمائی ہو گی۔

۵۔ وَّ یَنۡصُرَکَ اللّٰہُ نَصۡرًا عَزِیۡزًا: یہ فتح مبین اس لیے عنایت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی نصرت عنایت فرمائے جو ہر سرکش پر غالب آنے والی ہو۔

چنانچہ اس فتح مبین کے بعد مکہ فتح ہوا اور جزیرۃ العرب کفر و شرک سے پاک ہو گیا۔ روئے زمین پر اسلام ایک فاتح طاقت کی صورت میں ابھرا اور کبھی بھی اسلام کسی سرکش کے مقابلے میں شکست سے دوچار نہیں ہوا۔

اگر کہیں شکست سے دوچار ہوئے ہوں، مسلمان شکست کھا گئے، اسلام نہیں۔ یہ مسلمان اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے تھے:

وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ (۳ آل عمران: ۱۳۹)

تم ہی غالب رہوگے بشرطیکہ تم مومن ہو۔

ہر صورت میں نہیں، بلکہ مومن ہونے کی صورت میں۔

اہم نکات

۱۔ کبھی صلح میں وہ فتح و نصرت حاصل ہوتی ہے جو جنگ میں نہیں ہوتی۔

۲۔ صلح و قیام کے رموز ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔


آیات 1 - 3