آیت 4
 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ ؕ وَ لِلّٰہِ جُنُوۡدُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ۙ﴿۴﴾

۴۔ وہی اللہ ہے جس نے مومنین کے دلوں پر سکون نازل کیا تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ مزید ایمان کا اضافہ کرے اور آسمانوں اور زمین کے لشکر سب اللہ ہی کے ہیں اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔اس صلح کے بعد لشکر اسلام میں اکثر لوگ کبیدہ خاطر تھے۔ اس صلح کو اپنی شکست تصور کرتے تھے۔ دلوں میں سوالات پیدا ہونے لگ گئے تھے کہ اس خواب کا کیا مطلب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا تھا کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہو رہے ہیں اور اب واپس جا رہے ہیں۔ پھر صلح کی بعض شقوں کو اکثر مسلمان اہانت آمیز سمجھے تھے۔ اس طرح ایک اضطراب برپا تھا۔

لیکن اللہ نے سورہ فتح کے ذریعے ان مومنین کے دلوں میں سکون و اطمینان نازل فرمایا کہ یہ صلح ایک فتح مبین ہے۔ اس صلح کے ذریعے جو فتح حاصل ہوئی ہے وہ پے در پے ہونے والی فتوحات کے لیے پیش خیمہ ہے۔

۲۔ لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ: مومنین کے دلوں میں سکون و اطمینان نازل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو جائے چونکہ سکون و اطمینان کی وجہ سے شکوک و شبہات کا، جو ایمان کو کمزور کرنے کا باعث ہیں، ازالہ ہو گیا۔ جس کی وجہ سے ایمان کو فروغ حاصل ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت برحق ہے۔ صلح کا فیصلہ صائب اور حکم خدا کے مطابق تھا۔

واضح رہے ایمان میں اضافہ ہو سکتا ہے اور کمزوری بھی آ سکتی ہے چونکہ ایمان اس علم کا نام ہے جس پر عمل ہوتا ہے اور علم اور عمل دونوں میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور کمزوری بھی آ سکتی ہے۔

۳۔ وَ لِلّٰہِ جُنُوۡدُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: آسمانوں اور زمین میں موجود ساری طاقتیں اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ وہ کسی کمزوری کی وجہ سے صلح کا حکم نہیں دیتا۔ وہ چاہے تو لمحے میں مشرکین کو نابود کر سکتا ہے۔

۴۔ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا: یہ صلح اللہ تعالیٰ کے علم اور حکمت کی بنیاد پر ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہاں طاقت استعمال کرنی چاہیے اور کہاں صلح سے کام لینا چاہیے۔

اہم نکات

۱۔ دلوں میں ایمان موجود ہو تو اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔

۲۔ اللہ اپنی طاقت (جنود) کے ذریعے نہیں، مومنین کے جہادکے ذریعے دین کو پائیداری عنایت فرماتا ہے۔


آیت 4