آیات 43 - 46
 

اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوۡمِ ﴿ۙ۴۳﴾

۴۳۔ بے شک زقوم کا درخت،

طَعَامُ الۡاَثِیۡمِ ﴿ۖۛۚ۴۴﴾

۴۴۔ گنہگار کا کھانا ہے،

کَالۡمُہۡلِ ۚۛ یَغۡلِیۡ فِی الۡبُطُوۡنِ ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہے جو شکموں میں کھولتا ہے،

کَغَلۡیِ الۡحَمِیۡمِ﴿۴۶﴾

۴۶۔ جس طرح گرم پانی کھولتا ہے۔

تشریح کلمات

الزَّقُّوۡمِ:

(ز ق م) ایک ایسے پودے کو کہتے ہیں جو نہایت بدمزہ اور بدبودار ہے۔

الۡمُہۡلِ:

( م ھ ل ) کے معنی پگھلا ہوا تانبا کے ہیں۔

تفسیر آیات

یَوۡم الۡفَصۡل یوم الفصل کے فیصلے کا ذکر: اس فیصلے کے نتیجے میں منکرین معاد کو زقوم کا طعام کھانا ہو گا جو ان کے شکم میں کھولتا ہو گا جس طرح پگلا ہوا تانبا ہوتا ہے۔

طَعَامُ الۡاَثِیۡمِ: یہاں ایک مسئلہ نہایت قابل توجہ ہے کہ قرآن کے بارے میں ایک موقف ایسا اختیار کیا جاتا ہے جس کے مطابق قرآن کے الفاظ کو دوسرے لفظوں کے ساتھ تبدیل کرنا جائز قرار دیا جاتا ہے۔ مثلاً یہاں طَعَامُ الۡاَثِیۡمِ کی جگہ طعام الفاجر کہنا جائز ہے۔ اس سلسلے میں ابوالدرداء کی ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں۔ روح المعانی میں آیا ہے:

واستدل بذلک عی ان ابدال کلمۃ مکان کلمۃ جائز اذا کانت مؤدیۃ معناھا۔

اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ایک کلمہ کو دوسرے کلمہ سے بدلنا جائز ہے۔ اگر وہی معنی ادا ہو جاتا ہے۔

آلوسی اس آیت کے ذیل میں روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک فارسی شخص سے فرمایا: اگر اَثِیۡمِ کہنا نہیں آتا ہے تو طعام الظلام کہدو۔ پھر لکھا ہے:

و فی الباب اخبار کثیرۃ جیاد الاسانید۔

اس سلسلے میں عمدہ سندوں پر مشتمل روایات بہت زیادہ ہیں۔

ہم نے مقدمہ میں لکھا ہے کہ اس سے تحریف قرآن کا جواز نکل آتا ہے چونکہ قرآن کی فصاحت و بلاغت میں کلمات کے لحن کو بڑا دخل ہے۔ چنانچہ طَعَامُ الۡاَثِیۡمِ میں موجود ملاحت و شیرینی طعام الفاجر میں نہیں ہے۔


آیات 43 - 46