آیات 47 - 50
 

خُذُوۡہُ فَاعۡتِلُوۡہُ اِلٰی سَوَآءِ الۡجَحِیۡمِ﴿٭ۖ۴۷﴾

۴۷۔ اسے پکڑ لو اور جہنم کے بیچ تک گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ،

ثُمَّ صُبُّوۡا فَوۡقَ رَاۡسِہٖ مِنۡ عَذَابِ الۡحَمِیۡمِ ﴿ؕ۴۸﴾

۴۸۔ پھر اس کے سر پر کھولتے ہوئے پانی کا عذاب انڈیل دو۔

ذُقۡ ۚۙ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡکَرِیۡمُ﴿۴۹﴾

۴۹۔ چکھ (عذاب) بے شک تو (جہنم کی ضیافت میں) بڑی عزت والا، اکرام والا ہے۔

اِنَّ ہٰذَا مَا کُنۡتُمۡ بِہٖ تَمۡتَرُوۡنَ﴿۵۰﴾

۵۰۔ یقینا یہ وہی چیز ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے۔

تشریح کلمات

فَاعۡتِلُوۡہُ:

( ع ت ل ) العتل: کے معنی بزور گھسیٹنے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ خُذُوۡہُ: جہنم پر موکل فرشتوں کو یہ حکم ملے گا اس منکر کو پکڑ کر گھسیٹ کر جہنم کی طرف لے جاؤ۔ چونکہ یہ جہنم کی طرف چلنا نہیں چاہے گا اسے گھسیٹ کر لے جانا پڑے گا۔ سَوَآءِ الۡجَحِیۡمِ مطلب ہے جہنم کی درمیانی جگہ جہاں حرارت شدید ہو گی۔

۲۔ ثُمَّ صُبُّوۡا: شدید ترین حرارت والی جگہ پر بٹھانے کے بعد اس کے سر پر کھولتا ہوا پانی انڈیل دیا جائے گا۔ یہ اس عذاب کے علاوہ ہو گا جو جہنم کے درمیان میں ہونے کی وجہ سے مل رہا ہے۔

۳۔ ذُقۡ: پھر اس جسمانی عذاب پر نفسیاتی عذاب کا بھی اضافہ ہو گا اور اسے بطور طنز کہا جائے گا: اس جہنم کا مزہ خوب چکھ۔ آج جہنم کی ضیافت میں تمہیں بہتر پذیرائی ملے گی۔

۴۔ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡکَرِیۡمُ: آج تو جہنم میں عزت و اکرام والا ہے۔ لہٰذا تجھے عذاب کی عزت سے نوازا جائے گا۔ ہر طرف سے عذاب کی فراوانی ہو گی۔ اس ضیافت میں کسی عذاب کی کمی نہ ہو گی۔

تو اکرام والا بھی ہو گا۔ یہاں ہر قسم کی اہانت و مذلت کا سامنا کرنا ہو گا۔ تو دنیا میں انکار حق پر مبنی اپنا اکرام رکھتا تھا آج یہاں تجھے جہنمی اکرام سے نوازا جائے گا۔

۵۔ تَمۡتَرُوۡنَ: یہ وہی جہنم ہے، وہی عذاب ہے جس پر تمہیں یقین نہیں آتا تھا۔


آیات 47 - 50