آیت 40
 

وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۴۰﴾

۴۰۔ اور برائی کا بدلہ اسی طرح کی برائی سے لینا (جائز) ہے، پھر کوئی درگزر کرے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ پر ہے، اللہ یقینا ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا: ظلم و زیادتی کا بدلہ لینے کے ضوابط میں بنیادی بات یہ ہے:

جتنی برائی ہوئی ہے اس کے بدلے میں اتنی ہی برائی کی جائے۔ اس سے زیادہ کا حق نہیں ہے۔ برائی کا بدلہ برائی نہیں ہے۔ اسے برائی اس لیے کہا ہے کہ جس سے بدلہ لیا جاتا ہے اس کے لیے برائی ہے۔ اس کے لیے بدلہ نہ لینا بھلائی ہے۔

یہ اسلام کے عادلانہ نظام کا ایک اہم ترین قانون ہے کہ ظلم کا بدلہ لینا جائز قرار دیا اس پابندی کے ساتھ کہ بدلہ میں زیادتی نہ ہو۔

۲۔ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ: اگر بدلہ کی جگہ عفو اور درگزر سے کام لیا جائے۔ وَاَصْلَحَ اور جس نے زیادتی کی ہے اس کے ساتھ اصلاح کی جائے،

دوسری تفسیر یہ ہے کہ اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ درست رکھا جائے لیکن پہلی تفسیر قرین سیاق ہے،

فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ: تو اس کا اجر اللہ کے پاس یا اللہ کے ذمے ہو گا۔ یہ ایک تفضل ہے اللہ کی طرف سے اور اس سے اللہ کے مقام رحمت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر کس قدر شفیق اور مہربان ہے کہ اس درگزر کرنے کا اجر اپنے ذمے لیا ہے۔

روایت میں آیا ہے:

قیامت کے دن منادی ندا دے گا جس کا اجر اللہ کے ذمے ہو وہ جنت میں داخل ہو جائے تو کہا جائے گا کون ہے جس کا اجر اللہ کے ذمے ہے ؟ جواب آئے گا:

العافون عن الناس یدخلون الجنۃ بغیر حساب۔ ( تفسیر الآصفی ۲ ذیل آیہ۔ بحار ۶۴: ۲۶۶)

جو لوگوں کو عفو کرنے والے ہیں وہ جنت میں حساب کے بغیر داخل ہوں گے۔


آیت 40