آیت 11
 

ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَ ہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَ لِلۡاَرۡضِ ائۡتِیَا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَیۡنَا طَآئِعِیۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا پھر آسمان اور زمین سے کہا: دونوں آ جاؤ خواہ خوشی سے یا کراہت سے، ان دونوں نے کہا: ہم بخوشی آ گئے۔

تفسیر آیات

۱۔ ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ: لفظ اسۡتَوٰۤی کے بعدعلی مذکور ہے تو اس صورت میں اسۡتَوٰۤی کا مطلب استقرار ہوتا ہے۔ جیسے ثُمَّ اسۡتَوٰۤی عَلَی الۡعَرۡشِ اور اگر اسۡتَوٰۤی کے بعد اِلَی مذکور ہے تو اس صورت میں اسۡتَوٰۤی متوجہ ہونے کے معنوں میں ہوتا ہے۔ اس آیت میں السَّمَآءِ بنانے کے قصد و ارادہ کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ لفظ ثُمَّ سے تاخیر زمان مراد لینا ضروری نہیں ہے۔ یہ لفظ ترتیب بیانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے ترتیب زمان کے لیے ہوتا ہے۔ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تقدیم و تاخیر پر بحث غیر ضروری ہے چونکہ ارادۂ الٰہی زمانی نہیں ہے۔ خود زمانہ مخلوق خدا ہے۔

۲۔ وَ ہِیَ دُخَانٌ: جب یہ آسمان ابھی دھویں کی حالت میں تھا اس وقت اسے خلق کرنے کا ارادہ فرمایا۔ دھویں سے مراد وہ منتشر مادہ ہو سکتا ہے جو کائنات کی تخلیق سے پہلے فضا میں ایک غبار کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ ممکن ہے یہ مادہ وہی ہو جسے آج کل کے سائنسدان سحابیے (Nebula) کہتے ہیں۔ تاہم ان سائنسی نظریات پر، جو تھیوری کے مراحل میں ہوتے ہیں، قرآنی حقائق کا انطباق کرنا درست نہیں ہے۔

۳۔ فَقَالَ لَہَا وَ لِلۡاَرۡضِ ائۡتِیَا: پھر اللہ نے آسمان اور زمین کو بلایا کہ عدم سے منصۂ وجود میں آجاؤ۔ نیستی سے صفحۂ ہستی پر نمودار ہو جاؤ۔ یہ ارادۂ الٰہی کے لفظ کُنْ کی طرح ایک لفظی تعبیر ہے۔

۴۔ طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا ؕ: خوشی یا کراہت سے۔ ارض و سما کے لیے خوشی اورکراہت کا موجود ہونا شعور کی دلیل ہے جیسا کہ سورۃ الزلزال میں فرمایا:

یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخۡبَارَہَا ۙ﴿۴﴾ بِاَنَّ رَبَّکَ اَوۡحٰی لَہَا ؕ﴿۵﴾ (۹۹ زالزال: ۴ ۔ ۵)

اس دن وہ اپنے حالات بیان کرے گی۔ کیونکہ آپ کے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔

زمین اپنی پشت پر رونما ہونے والے اعمال عباد کی گواہی دے گی۔ لہٰذا زمین کا گواہی دینا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو حکم ملنا شعور کی دلیل ہے۔

نیز اس حکم میں خوشی اور کراہت میں سے ایک کے انتخاب کا بھی اشارہ ملتا ہے اور انتخاب دلیل شعور ہے۔

۵۔ قَالَتَاۤ اَتَیۡنَا طَآئِعِیۡنَ: اللہ کے حکم تکوینی کی اطاعت کا اظہار ہے کہ ہم خوشی یعنی فطرت سے مانوس ہو کر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ اگرچہ تخلیق الٰہی عین فطرت ہے اور طوعاً کے علاوہ دوسری صورت واقع نہیں ہو سکتی تاہم عام فہم لفظوں میں حکم الٰہی کے نفاذ کے لیے یہ تعبیر اختیار فرمائی۔ اس کے علاوہ اور جو کچھ اس سلسلے میں کہا جاتا ہے وہ ظن و تخمین اور مفروضے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔


آیت 11