آیت 10
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡیَتٰمٰی ظُلۡمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ نَارًا ؕ وَ سَیَصۡلَوۡنَ سَعِیۡرًا﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ جو لوگ ناحق یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی جہنم کی بھڑکتی آگ میں تپائے جائیں گے۔

تفسیر آیات

سابقہ آیت میں انسان کے اپنے وجود کے اندر موجود فطری عوامل سے یتیموں پر ظلم کرنے سے باز رہنے کی بات ہوئی۔ اس آیت میں بیرونی عوامل سے خوف دلایا جا رہا ہے کہ یتیم کا مال کھانا درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھرنے کے مترادف ہے۔

یتیم کا مال کھانا پیٹ میں آگ بھرنا ہے۔ اس تعبیر سے دو باتیں سامنے آتی ہیں:

i۔ اعمال کی سزا اورجزا قراردادی نہیں بلکہ طبیعی ہے۔ یعنی گناہ کا ایک طبیعی نتیجہ ہوتا ہے جو ارتکاب کرنے والے کے لیے عذاب پر منتج ہوتاہے۔ چنانچہ یتیم کا مال کھانے کا طبیعی نتیجہ آگ ہے۔

ii۔ اعمال مجسم ہو کر سامنے آئیں گے۔ جیساکہ پہلے بھی ذکر ہوا کہ انسان کے اعمال قیامت کے دن بذات خود مجسم ہو کر سامنے آئیں گے۔ چنانچہ توانائی کے مادے میں تبدیل ہونے کے اصول کے مطابق عین ممکن ہے کہ یتیم کا مال کھانے کا عمل آگ کی شکل اختیار کر کے کھانے والے کو جلا دے۔

اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اس آیت کی کسی قسم کی تاویل کی ضرورت نہیں ہے کہ مال یتیم کو مجازاً آگ کہا گیا ہے وغیرہ۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کے دن برے اعمال خود سزا بن کر سامنے آئیں گے۔


آیت 10