آیت 9
 

وَ لۡیَخۡشَ الَّذِیۡنَ لَوۡ تَرَکُوۡا مِنۡ خَلۡفِہِمۡ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَیۡہِمۡ ۪ فَلۡیَتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا﴿۹﴾

۹۔ اور لوگوں کو اس بات پر خوف لاحق رہنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑ جاتے جن کے بارے میں فکر لاحق ہوتی (کہ ان کا کیا بنے گا) تو انہیں چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور سنجیدہ باتیں کریں ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لۡیَخۡشَ الَّذِیۡنَ: یتیموں پر ظلم کرنے سے باز رکھنے کے لیے خود لوگوں کی پدرانہ شفقت اور اولاد سے فطری محبت کی حس سے کام لیا جا رہا ہے اور فرمایا جا رہا ہے کہ اگر خود تمہارے بچوں کا یہی حال ہو کہ وہ بے پدر اور بے سہارا ہو جائیں تو تم کیا توقع رکھتے ہو کہ دوسرے تمہارے بچوں سے کیسا سلوک کریں۔ یہی سلوک قولاً و عملاً ان یتیموں کے ساتھ رکھو۔ یعنی اگر تم نے یتیموں پر ظلم کیا تومکافات عمل کی بنیاد پر خود تمہاری اولاد کے ساتھ یہی حشر ہو گا۔ قرآن کی مختلف آیات سے اچھے اور برے اعمال کا دنیا میں مکافات عمل ہونا ثابت ہے اور یہ مسئلہ بھی اسی میں سے ہے۔

اس آیت کی دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے کہ دنیا سے جاتے ہوئے انسان کو اپنے وارثین کا بھی خیال کرنا چاہیے۔ اگر ان میں بے بس بچے ہوں کہ سارا مال کسی کو ہبہ کر کے یا وصیت کر کے نہ جائیں۔ حدیث میں ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ فرمایا ہے کہ ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔(مجمع البیان)

۲۔ فَلۡیَتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡیَقُوۡلُوۡا: یتیموں پر ظلم کرنے سے پرہیز کرو اور ان بچوں کو شفقت کی ضرورت ہے، ان سے سنجیدہ باتیں کرو۔ یعنی اچھی باتیں کرو کہ وہ احساس محرومیت نہ کریں۔

اہم نکات

۱۔ مکافات عمل ایک الٰہی قانون اور یتامیٰ پر ظلم کرنے والو ں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔


آیت 9