آیت 19
 

اَفَمَنۡ حَقَّ عَلَیۡہِ کَلِمَۃُ الۡعَذَابِ ؕ اَفَاَنۡتَ تُنۡقِذُ مَنۡ فِی النَّارِ ﴿ۚ۱۹﴾

۱۹۔ بھلا جس شخص پر عذاب کا فیصلہ حتمی ہو گیا ہو کیا آپ اسے بچا سکتے ہیں جو آگ میں گر چکا ہو؟

تفسیر آیات

۱۔ ایک شخص کفر و شرک پر ڈٹ جاتا ہے۔ توحید کی طرف آنے کا نہ صرف عزم نہیں رکھتا بلکہ اپنی ضد پر قائم ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں اللہ کا فیصلہ اٹل ہو جاتا ہے۔

حَقَّ عَلَیۡہِ کَلِمَۃُ الۡعَذَابِ اور حق القول اور اس قسم کی تعبیر ہمیشہ ان فیصلوں کے بارے میں اختیار فرماتا ہے جو اٹل ناقابل تنسیخ ہوں۔

واضح رہے۔ یہاں حَقَّ عَلَیۡہِ کَلِمَۃُ الۡعَذَابِ اور اسی سورہ کی آیت ۷۱ میں حَقَّتۡ کَلِمَۃُ الۡعَذَابِ اول تو کلمہ تانیث حقیقی نہیں۔ ثانیاً فعل اور کلمۃ کے درمیان فاصلہ آنے کی صورت میں فعل کا مذکر اور مؤنث لانا دونوں درست ہیں۔

۲۔ اَفَاَنۡتَ تُنۡقِذُ مَنۡ فِی النَّارِ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ لوگوں کے آتش میں جانے سے ان پر ترس آتا تھا۔ اس لیے فرمایا: اللہ کی طرف سے فیصلہ اٹل ہونے کے بعد کیا آپ آتش میں جانے والے کو بچا سکیں گے؟ نہیں۔ اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا تھا لیکن اللہ کا عادلانہ فیصلہ بھی ضروری تھا اس لیے فیصلہ اٹل ہو گیا۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کا فیصلہ اٹل ہونے کے بعد عفو کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔


آیت 19