آیات 17 - 18
 

وَ الَّذِیۡنَ اجۡتَنَبُوا الطَّاغُوۡتَ اَنۡ یَّعۡبُدُوۡہَا وَ اَنَابُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الۡبُشۡرٰی ۚ فَبَشِّرۡ عِبَادِ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ اور جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کیا ان کے لیے خوشخبری ہے، پس آپ میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجئے،

الَّذِیۡنَ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقَوۡلَ فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحۡسَنَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدٰىہُمُ اللّٰہُ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ﴿۱۸﴾

۱۸۔ جو بات کو سنا کرتے ہیں اور اس میں سے بہتر کی پیروی کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور یہی صاحبان عقل ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الَّذِیۡنَ اجۡتَنَبُوا الطَّاغُوۡتَ: غیر اللہ کی پرستش کرنے والے مشرکین کے مقابلے میں ان موحدین کا ذکر ہے جو غیر اللہ کی بندگی سے اجتناب کرتے ہیں۔ طاغوت اگرچہ طغیان سے ہے اور حد سے تجاوز کرنے والے کو کہتے ہیں مگر قرآن اس لفظ کو معبود غیر اللہ کے لیے استعمال کرتا ہے۔

۲۔ وَ اَنَابُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ: غیر اللہ کی پرستش سے اجتناب کر کے اللہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ ایمان دو ستونوں پر قائم کرتے ہیں۔ ترک شرک اور رجوع الی اللہ۔ ان دونوں ستونوں کی فراہمی پر اگلے جملے میں فرمایا:

۳۔ لَہُمُ الۡبُشۡرٰی ۚ فَبَشِّرۡ عِبَادِ الَّذِیۡنَ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقَوۡلَ: میرے ان بندوں کو بشارت دو جو سنتے تو سب کی ہیں لیکن اتباع اور پیروی کی نوبت آتی ہے تو احسن الاقوال کا انتخاب کرتے ہیں۔پھر اس کی پیروی کرتے ہیں۔

اس آیۂ مبارکہ میں حق اور حقیقت تک پہنچنے کے لیے ایک صائب طریقہ بیان فرمایا ہے۔ وہ ہے حق کی جستجو کے لیے جس جس کے پاس کوئی نظریہ ہے سب کو سن لیا جائے۔ کسی کی بات سن لینے سے پہلے اس کے موقف کے بارے میں کوئی نظریہ قائم نہیں کرنا چاہیے۔

۴۔ فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحۡسَنَہٗ: سب کا موقف سن لینے کے بعد احسن اور بہتر کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ لوگ حسن اور احسن، خوب اور خوب تر میں امتیاز کر سکتے ہیں۔ ان میں اس انتخاب کی فکری اور عقلی صلاحیت موجود ہے۔ یہ صلاحیت ان میں حق کی جستجو کا عزم ہونے کی وجہ سے آ گئی ورنہ اگر وہ اپنے نظریے پر بضد رہیں اور حق کی جستجو کا عزم ہی نہ ہو، ان کے دلوں پر تالا لگ جاتا ہے۔

۵۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدٰىہُمُ اللّٰہُ: ان کے اس تلاش حق کے عزم کی وجہ سے اللہ انہیں راہ حق کی ہدایت عنایت فرماتا ہے۔

۶۔ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ: یہی لوگ صاحبان عقل ہیں۔ اسی عقلی قوت کی وجہ سے وہ احسن کی تلاش میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

حضرت امام موسیٰ بن جعفر علیہما السلام سے روایت ہے:

اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی بَشَّرَ اَھْلَ الْعَقْلِ وَالْفَہْمِ فِی کِتَابِہِ۔۔۔۔ (الکافی۱: ۱۳)اپنی کتاب (قرآن) میں اللہ نے عقل و فہم والوں کو بشارت دی ہے۔ (پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔)

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

العلم اکثر من ان تحصی فخذوا من کل شئ احسنہ۔ (مجموعۃ ورام ۲:۱۵ )

علم شمار سے زیادہ ہے لہٰذا ہر چیز میں سے خوب تر کو لے لو۔

اہم نکات

۱۔ طاغوت سے دوری کے بعد ہی توبہ اور انابت ہو سکتی ہے۔

۲۔ عقل اس قوت کا نام ہے جو احسن کے انتخاب پر قادر ہو۔

۳۔ سب کی بات سننے میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔


آیات 17 - 18