آیت 16
 

لَہُمۡ مِّنۡ فَوۡقِہِمۡ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَ مِنۡ تَحۡتِہِمۡ ظُلَلٌ ؕ ذٰلِکَ یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہٗ ؕ یٰعِبَادِ فَاتَّقُوۡنِ﴿۱۶﴾

۱۶۔ ان کے لیے ان کے اوپر آگ کے سائبان اور ان کے نیچے بھی شعلے ہوں گے، یہ وہ بات ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، پس اے میرے بندو! مجھ سے ڈرو۔

تفسیر آیات

۱۔ غیر اللہ کی بندگی کرنے والوں نے خسارہ اٹھایا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ آتش جہنم میں گھرے ہوئے ہوں گے۔ اوپرآتشیں سائبان ہوں گے اور نیچے بھی آتش کا سائبان ہو گا۔ نچلے درجے کے اہل جہنم کے لیے سائبان ہو گا خود ان کے لیے آتشیں فرش ہو گا۔

۲۔ ذٰلِکَ یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہٗ: جہنم کے آتشیں سائبانوں میں گھرا ہوا ہونا وہ عذاب ہے جو غیر اللہ کی بندگی کرنے والوں کے لیے ہے۔ اللہ قبل از وقت اپنے بندوں کو اس عذاب کا خوف دلاتا ہے تاکہ وہ اس عذاب سے اپنے آپ کو بچائیں۔

۳۔ یٰعِبَادِ فَاتَّقُوۡنِ: ایک رحمت بھرے لہجے میں ارشاد ہے: اے میرے بندو! میرے عذاب سے بچو۔ اللہ کو انہیں عذاب دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اگر یہ خود اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا نہ کرتے:

مَا یَفۡعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمۡ اِنۡ شَکَرۡتُمۡ وَ اٰمَنۡتُمۡ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۱۴۷)

اگر تم شکر ادا کرو اور ایمان لے آؤ تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا؟

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے:

الخاسر من غفل عن اصلاح المعاد ۔۔۔۔ (مجموعۃ ورام ۲: ۱۱۸)

خسارہ اٹھانے والا وہ ہے جو آخرت کو درست کرنے سے غافل رہتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ حقیقی معبود کو چھوڑنے کے بعد جس سے چاہو وابستہ ہو جاؤ، فرق نہیں کرتا۔

۲۔ ابدی زندگی کی خسارے سے بڑھ کر کوئی خسارہ نہیں ہے۔

۳۔ انسان خود کے ساتھ اپنے اہل و عیال کا بھی ذمہ دار ہے۔

۴۔ اللہ کی طرف سے تنبیہ، رحمت و شفقت کی بنیاد پر ہے۔


آیت 16