آیت 24
 

وَ قِفُوۡہُمۡ اِنَّہُمۡ مَّسۡئُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ انہیں روکو، ان سے پوچھا جائے گا۔

تفسیر آیات

انہیں جہنم کی طرف لے جاتے ہوئے رکنے کا حکم ہو گا کہ ان سے سوال ہو گا۔ مضمون سوال کیا ہو گا؟ بعض کے نزدیک مضمون یہ ہو گا:

اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِ رَبِّکُمۡ۔۔۔۔ (۳۹ زمر: ۷۱)

کیا تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے، جو تمہارے رب کی آیات تمہیں سناتے۔۔۔۔

بعض دیگر مفسرین لکھتے ہیں: ان کے اعمال و عقائد کے بارے میں سوال ہو گا۔

فضائل: اس جگہ از باب تطبیق متعدد روایات موجود ہیں کہ اس مرحلے میں ولایۃ علی علیہ السلام کے بارے میں سوال ہو گا۔ ہم ذیل میں ان روایت کے ساتھ شیعہ سنی مصادرکا ذکر کرتے ہیں:

ابو ھارون العبدی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے: وَ قِفُوۡہُمۡ اِنَّہُمۡ مَّسۡئُوۡلُوۡنَ امامت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

اس روایت کو دوسرے طریق سے قیس نے ابو ہارون سے، انہوں نے ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے۔ اس میں کہا ہے: عن ولا یۃ علی بن ابی طالب۔ ملاحظہ ہو شواھد التنزیل ۲: ۱۶۱،، تاریخ بغداد ۸: ۹۵

اس روایت کو حافظ ابن مردویۃ نے چند ایک طرق سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو کشف الغمۃ ۱: ۳۱۵ اور حاکم حسکانی نے سعید بن جبیر کی روایت ابن عباس سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اذا کان یوم القیامۃ اوقف انا و علیُّ علی الصراط ، فمایمرُّ بنا احد الاسألناہ عن ولایۃ علی فمن کانت معہ والا القیناہ فی النار و ذلک قولہ: وَ قِفُوۡہُمۡ اِنَّہُمۡ مَّسۡئُوۡلُوۡنَ۔ ( شواھد التنزیل ۲: ۱۱۳)

جب قیامت کا دن ہو گا مجھے اور علی کو پل صراط پر بٹھا دیا جائے گا۔ پھر جوشخص بھی گزرے گا اس سے ہم ولایت علی کے بارے میں پوچھیں گے اگر اس کے ساتھ ولایت علی موجود ہے تو درست ورنہ اسے آتش میں پھینک دیں گے اور یہ اللہ کا فرمان ہے: انہیں روکو ان سے پوچھا جائے گا۔

ایک اور روایت میں مغیرہ سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے یہی مضمون روایت کیا ہے۔ دیگر روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:

لا یزول قدم عبد یوم القیامۃ حتی یسئل عن اربعۃ عن عمر فیما افناہ و عن شبابہ فیما ابلاہ و عن مالہ من این اکتسبہ و فیھا انفقہ و عن حبنا اہل البیت۔ ( بحار ۲۷: ۳۱۱)

قیامت کے دن انسان کا کوئی قدم آگے نہیں بڑھے گا جب تک چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ ہو۔ اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیزیں گزاری۔ اس کے جوانی کے بارے میں کہ اسے کس چیز میں ختم کیا۔ اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور ہم اہل بیت کی محبت کے بارے میں۔

اہل سنت کے مصادر میں بھی یہ روایت موجود ہے مگر عن حبنا اھل البیت کی جگہ عن عملہ ماذا عمل بہ ہے۔

آلوسی روح العانی میں اس روایت کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں:

و اولی ھذہ الاقوال ان السوال عن العقائد والاعمال و رأس ذلک لا الہ الا اللہ و من اجلہ ولایۃ علی کرم اللہ وجھہ وکذا ولایۃ اخوانہ الخلفاء الراشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔

ان اقوال میں بہتر قول یہ ہے کہ سوال عقائد و اعمال سے ہو گا۔ ان میں سب سے اہم لا الٰہ الا اللہ ہے اور ان میں سب سے جلیل القدر ولایت علی کرم اللہ وجہ ہے اور اسی طرح ان کے برادران خلفائے راشدین کی ولایت ہے۔

ولایت علی علیہ السلام سے سوال تو حدیث کے مطابق ہے مگر دیگر خلفاء کی ولایت مؤلف کی اپنی ذاتی خواہش کے مطابق ہے۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کے دن حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت کی ولایت کے بارے میں سوال ہو گا۔


آیت 24