آیت 33
 

وَ اٰیَۃٌ لَّہُمُ الۡاَرۡضُ الۡمَیۡتَۃُ ۚۖ اَحۡیَیۡنٰہَا وَ اَخۡرَجۡنَا مِنۡہَا حَبًّا فَمِنۡہُ یَاۡکُلُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ اور مردہ زمین ان کے لیے ایک نشانی ہے جسے ہم نے زندہ کیا اور اس سے غلہ نکالا جس سے یہ کھاتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اٰیَۃٌ لَّہُمُ: ان منکرین معاد کے لیے وجود معاد کی ایک نشانی، نظیر اور مثال یہ ہے کہ الۡاَرۡضُ الۡمَیۡتَۃُ ۚۖ اَحۡیَیۡنٰہَا مردہ زمین کو ہم زندہ کرتے ہیں اور حیات بعد از موت کا نظارہ وہ ہمیشہ کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا:

فَاِذَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡہَا الۡمَآءَ اہۡتَزَّتۡ وَ رَبَتۡ ؕ اِنَّ الَّذِیۡۤ اَحۡیَاہَا لَمُحۡیِ الۡمَوۡتٰی۔۔۔۔ (۴۱ حم سجدہ: ۳۹)

اور جب ہم اس پر پانی برسائیں تو وہ یکایک جنبش میں آتی ہے اور پھلنے پھولنے لگتی ہے، تو جس نے زمین کو زندہ کیا وہی یقینا مردوں کو زندہ کرنے والا ہے

اس مو ضوع پر گزشتہ متعدد آیات میں تفصیل سے گفتگو ہوگئی ہے۔

۲۔ وَ اَخۡرَجۡنَا مِنۡہَا حَبًّا فَمِنۡہُ یَاۡکُلُوۡنَ: آیت کے اس جملے میں دو نکات پوشیدہ ہیں: ایک یہ کہ ہم نے مردہ زمین سے دانہ نکالا۔ اس دانے سے تم اپنی زندگی کا تسلسل باقی رکھ رہے ہو۔ اس زمین کی حیات سے تم اپنی حیات کی بقا کا سامان فراہم کر رہے ہو۔ پھر کہتے ہو اللہ موت کے بعد زندگی کیسے دے گا؟ اللہ اس دانے سے تمہارے مردہ خلیوں کو ہر آن زندہ کرتا ہے پھر کہتے ہو اللہ مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تمہاری حیات کی تدبیر اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمہیں روزی فراہم کرنے والا اللہ ہے۔ چنانچہ ہم نے قرآن کے ساتھ کئی بار اس بات کا ذکر کیا ہے کہ رزق تخلیق مسلسل کا نام ہے۔ اس آیت میں یہی فرمایا کہ ہم نے زمین سے دانہ نکالا جس سے تم کھاتے ہو۔ زمین سے دانہ نکالنا تخلیق اور ترزیق ہے۔ لہٰذا خالقیت اور رازقیت قابل تفریق نہیں ہے۔


آیت 33