آیت 11
 

اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکۡرَ وَ خَشِیَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَیۡبِ ۚ فَبَشِّرۡہُ بِمَغۡفِرَۃٍ وَّ اَجۡرٍ کَرِیۡمٍ﴿۱۱﴾

۱۱۔ آپ تو صرف اسے تنبیہ کر سکتے ہیں جو اس ذکر کی اتباع کرے اور بن دیکھے رحمن کا خوف رکھے، ایسے شخص کو مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکۡرَ: اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کے لیے تنبیہ سود مند ہے۔ دو خصلتیں ایسی بیان فرمائی ہیں جن کی وجہ سے تنبیہ موثر ہو جایا کرتی ہے:

الف: مَنِ اتَّبَعَ الذِّکۡرَ: جن میں قرآن کی پیروی کرنے کی صلاحیت موجود ہو یا تذکر و نصیحت پر کان دھرنے کی قابلیت ہو تو ایسے باضمیر لوگوں کو تنبیہ کی جائے تو وہ آپ کی تنبیہ و نصائح سے اثر لیں گے۔

ب: وَ خَشِیَ الرَّحۡمٰنَ: بن دیکھے رحمن کا خوف ہو تو وہ لوگ آپ کی تنبیہ سے اثر لیں۔ ان کا ضمیر بیدار ہو اور وہ اس ذات کا خوف کریں جو رحمن ہے۔ رحمت والی ذات سے خوف کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے ظلم سے نہیں بلکہ اس کے عدل سے خوف ہو گا۔

یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی فطرت ابھی بیدار ہے اور وجدان پر پردہ نہیں ہے۔ اس بیداری ضمیر و فطرت کی وجہ سے وحی کی آواز ان کے وجدان سے ٹکراتی ہے تو دل میں خوف آتا ہے چونکہ فطرت اس آواز کو پہچان لیتی ہے۔

۲۔ فَبَشِّرۡہُ بِمَغۡفِرَۃٍ وَّ اَجۡرٍ کَرِیۡمٍ: ایسے باوجدان، بیدار فطرت لوگوں کو مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دیں۔ کریم سے مراد وہ شیء ہے جو قابل ستائش ہو۔ الکریم اسم جامع لکل مایحمد ۔ جس میں کسی نامطلوب چیز کا شائبہ نہ ہو وہ اجر کریم ہے۔

اہم نکات

۱۔ جن کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے وہ حق کی آواز نہیں سن سکتے۔ وَ سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ۔۔۔۔

۲۔ اتباع اور خوف، ارادہ و شعور کی علامت ہیں جو زندہ ضمیروں کے پاس ہوا کرتا ہے۔


آیت 11