آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ احزاب

زرّ، ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں:

مجھ سے ابی بن کعب نے کہا: تم سورۃ الاحزاب کی آیات کتنی شمار کرتے ہو؟ کہا: ۷۳ آیات۔ کہا: مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ساتھ ابی بن کعب قسم کھاتا ہے کہ یہ سورہ سورۃ البقرۃ کے برابر یا اس سے زیادہ طویل ہے۔ ہم نے اس سورہ میں آیۂ رجم کی تلاوت کی ہے: الشیخ و الشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم ۔

اس روایت کو نسائی، حاکم، طبرانی، ابن حبان اور ابن مردویہ نے بیان کیا ہے۔

زمخشری اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

ابی نے اس سے قرآن کا وہ حصہ مراد لیا ہے جو منسوخ ہو گیا ہے۔

پھر آگے لکھتے ہیں:

نقل کیا جاتا ہے کہ اس سورت کا زائد حصہ حضرت عائشہؓ کے گھر میں ایک صحیفہ میں تھا جو بکری کھا گئی۔ یہ بات ملحد اور رافضی لوگوں کی ساختہ و بافتہ ہے۔

فاضل محشی نے اس کے ذیل میں لکھا ہے:

قلت: بل راویھا ثقۃ غیر متہم بلکہ اس روایت کے راوی ثقہ ہیں۔ ان پر کوئی الزام بھی عائد نہیں ہے۔

آخر میں لکھتے ہیں:

بل ھذا مما نسخت تلاوتہ و بقی حکمہ و اکل الدواجن وقع بعد النسخ ۔ ( الکشاف ذیل آیہ)

بلکہ یہ اس حصہ کی بات ہے جس کی تلاوت نسخ ہو گئی اور حکم باقی رہ گیا۔ بکری کے کھانے کا واقعہ نسخ کے بعد پیش آیا۔

واضح رہے شیعہ امامیہ کے نزدیک قرآن تواتر سے ثابت ہوتا ہے، اس قسم کی روایت آحاد سے قرآن ثابت نہیں ہوتا کہ نسخ کی نوبت آئے۔ جو لوگ ایسی روایات سے قرآن ثابت ہونا قرار دیتے ہیں وہ نسخ تلاوت کے ذریعے قرآنیت سے ہاتھ اٹھاتے ہیں جب کہ نسخ تلاوت ایک مفروضہ ہے۔ ایک ثابت متواتر اجماعی موقف نہیں ہے جس سے قرآن منسوخ ہو جائے۔ لہٰذا ان روایات کے مضمون کو قرآن ماننے کے لیے تواتر درکار ہے۔ اگر وہ اسے قرآن مانتے ہیں تو نسخ کے لیے تواتر درکار ہے ورنہ جسے ان لوگوں نے قرآن تسلیم کیا ہے اس کی تحریف لازم آتی ہے۔ فافہم ذلک ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ۙ﴿۱﴾

۱۔ اے نبی اللہ سے ڈریں اور کفار اور منافقین کی اطاعت نہ کریں، اللہ یقینا بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ: اس آیت کو سمجھنے کے لیے شان نزول کا مطالعہ ضروری ہے۔ چونکہ شان نزول سے محل کلام اور رخ سخن کا علم ہو جاتا ہے۔ شان نزول اس طرح ہے:

جنگ احد کے بعد ابوسفیان کی سربراہی میں مکہ کا ایک وفد مدینہ آتا ہے اور منافقین کے سربراہ عبد اللہ بن ابی کے پاس ٹھہرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی انہیں امان دی تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات کریں۔ چنانچہ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: ہمارے معبودوں لات، عزیٰ اور مناۃ کے خلاف کچھ نہ کہیں اور یہ کہدیں کہ جو ان کی پوجا کرتے ہیں یہ ان کی شفاعت کریں گے تو ہم بھی آپ کے رب کو کچھ نہیں کہیں گے۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے گراں گزری۔ حضرت عمر پاس بیٹھے تھے۔ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا انہیں قتل کر دوں؟ فرمایا: میں نے انہیں امان دی ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۲۔ اتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ: اس آیت کا موضوع سخن یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خلاف تقویٰ کوئی کام صادر ہونے کا خطرہ تھا یا کفار و منافقین کی اطاعت میں جانے کا اندیشہ تھا بلکہ موضوع سخن یہ ہے کہ کفار و منافقین نے مل کر ایک سازش کی ہے، اس سے بچنے کے لیے اللہ کی حفاظت میں رہیں۔ اتَّقِ اللّٰہَ: اور ان کی ہر تجویز کو مسترد کر دیجیے۔ وَ لَا تُطِعِ: اس تعبیر کا مطلب کفار و منافقین کی سازش کی ناکامی کی بشارت ہے۔

۳۔ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا: اللہ ان کی نیتوں کو جانتا ہے اور جو حکم دے رہا ہے وہ تیر بہدف ہو گا چونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم حکیمانہ ہوتا ہے۔ اس جملے میں بھی کفار و منافقین کی مشترکہ سازش کی ناکامی کی طرف اشارہ ہے۔


آیت 1