آیات 58 - 59
 

وَ لَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ؕ وَ لَئِنۡ جِئۡتَہُمۡ بِاٰیَۃٍ لَّیَقُوۡلَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا مُبۡطِلُوۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور بتحقیق ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال بیان کی ہے اور اگر آپ ان کے سامنے کوئی نشانی پیش کر بھی دیں تو کفار ضرور کہیں گے: تم تو صرف باطل پر ہو۔

کَذٰلِکَ یَطۡبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۵۹﴾

۵۹۔ اس طرح اللہ ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جو علم نہیں رکھتے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ: قرآن کتاب ہدایت ہے اور مثال، حقائق سمجھانے کے لیے مؤثر ترین طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حقائق سمجھانے کے لیے خطاب کے تمام اسلوب اختیار کیے اور دلوں اور عقلوں کی بیدار کے لیے ہر وسیلہ اختیار کیا ہے۔ ایسا اسلوب سخن اختیار کیا ہے جو ہر عقل اور ہر قلب ہر ماحول ہر طبقہ کے لیے قابل فہم ہے۔ اگر کوئی مطلب مادی ذہنوں سے دور ہے، اسے محسوسات کی مثال میں پیش فرمایا۔ اگر کوئی مطلب ملکوتی ہے اسے مشاہداتی دنیا میں لا کر پیش فرمایا۔ حتیٰ کہ سطحی ذہنوں کے لیے سطحی مثال پیش فرمائی۔ صاحبان عقل و خرد کے لیے ان کی سطح کی مثال پیش فرمائی۔ ہر طبقہ کے لیے اس کی فکری سطح کے مطابق مثال پیش فرمائی۔ یہاں تک کہ بعض دشمنان اسلام نے تو ان مثالوں کے سطحی ہونے پر اعتراض بھی کیا: مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۲۶) مچھر کی مثال سے اللہ کا کیا مقصد ہے۔

۲۔ وَ لَئِنۡ جِئۡتَہُمۡ بِاٰیَۃٍ: اگر آپ کوئی معجزہ پیش کرتے بھی ہیں تو یہ لوگ اس پر ایمان لانے کی جگہ اس معجزہ کو باطل کی کرشمہ سازی قرار دیتے ہیں۔ کبھی کذاب، کبھی ساحر، کبھی مجنون قرار دیتے ہیں۔

۳۔ کَذٰلِکَ یَطۡبَعُ اللّٰہُ: جو لوگ قرآنی امثال و آیات پر ایمان نہیں لاتے اور معجزات کو بھی باطل قرار دیتے ہیں، ایسے لا علم، جاہل، ناقابل علاج لوگوں کو اللہ اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ جب اللہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے تو ہدایت کے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں اور دلوں پر مہر لگ جاتی ہے۔


آیات 58 - 59