آیات 196 - 198
 

لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِی الۡبِلَادِ ﴿۱۹۶﴾ؕ

۱۹۶۔ (اے رسول !) مختلف علاقوں میں کافروں کی آمد و رفت آپ کو کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔

مَتَاعٌ قَلِیۡلٌ ۟ ثُمَّ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمِہَادُ﴿۱۹۷﴾

۱۹۷۔یہ چند روزہ عیش و نوش ہے پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا جو بدترین جائے قرار ہے۔

لٰکِنِ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّہُمۡ لَہُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا نُزُلًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ لِّلۡاَبۡرَارِ﴿۱۹۸﴾

۱۹۸۔ لیکن (اس کے برعکس) جو لوگ اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ اللہ کی طرف سے (ان کے لیے) ضیافت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے نیک لوگوں کے لیے وہ سب سے بہتر ہے۔

تفسیر آیات

سابقہ آیت سے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ مومن کے حصے میں ہجرت، جلا وطنی، قتال کرنا اور قتل ہو جانا ہے، جب کہ کفار کے لیے تمام سامان عیش و نوش اور نعمتوں کی فراوانی ہے۔ کیا اللہ کا یہ نظام حق و باطل کی پہچان نہیں رکھتا کہ باطل پر کرم کرتا ہے اور حق والوں کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے؟ اس آیت میں خطاب اگرچہ رسول (ص) سے ہے لیکن تمام مسلمان مقصود کلام ہیں، جنہیں یہ باور کرانا ہے کہ انسان اگر دنیا و آخرت کی مجموعی زندگی کو سامنے رکھے تو یہ چند روزہ زندگی اسے حقیر نظر آئے گی اور اسے فقط وہی لوگ خوشحال نظر آئیں گے جن کی ابدی زندگی آباد و شاد ہو گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی ضیافت میں ہوں گے۔

۱۔ لَا یَغُرَّنَّکَ: مختلف علاقوں میں کفار کی آمد و رفت سے مراد ان کی تجارتی سرگرمی اور مال و ثروت کی فراوانی ہے۔ چونکہ مکہ کے مشرکین کی دولت و ثروت کا انحصار تجارت پر تھا اور مدینہ کے یہودی تجارت و زراعت کے ذریعہ دولت بناتے تھے۔

۲۔ مَتَاعٌ قَلِیۡلٌ: جہنم کا عذاب جو ان کے کافروں کے انتظار میں ہے، اس کے ساتھ تقابل کرو تو یہ متاع زندگی نہایت حقیر لگے گی۔

۳۔ لٰکِنِ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا: مگر اہل تقویٰ جو اس دنیا کی رعنائیوں سے محروم ہیں، جو جنت کی نہریں اور نعمتیں ان کے انتظار میں ہیں، ان کے ساتھ تقابل کیا جائے تو یہ محرومیت خود اپنی جگہ ایک نعمت لگے گی۔ چونکہ اگر دین کو دنیوی نعمتوں کی فروانی اور زندگی کی رعنائیوں میں رکھا جاتا تو لوگ دین کے لیے نہیں، ان نعمتوں کے لیے دین کو اختیار کرتے۔ اس طرح مؤمن اور مفاد پرستوں میں امتیاز نہ رہتا۔ لہٰذا یہ محرومیت ایک امتیاز ہے، جو عظیم نعمت ہے۔

۴۔ نُزُلًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ: جنت کی نعمتوں کی کیفیت اور قیمت کا اندازہ اس جملے سے ہوتا ہے، جس میں فرمایا: یہ سب اللہ کی طرف سے ضیافت کے طور پر ہے۔ ضیافت کی تعبیر کس قدر شیرین ہے اور وہ بھی اللہ کی ضیافت ہو۔ چونکہ ضیافت میں اکرام و احترام، پیار و محبت، امن و سکون کی فضا ہوتی ہے۔

۵۔ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ لِّلۡاَبۡرَارِ: نیکی کرنے والوں کے لیے اللہ کے پاس موجود ضیافت کا دنیاوی نعمتوں کے ساتھ موازنہ کبھی نہیں ہو سکتا۔

اہم نکات

۱۔ کفار کی نقل و حرکت اور پر تعیش زندگی سے مؤمن کو دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔

۲۔ حقیقی زندگی اخروی زندگی ہے اور اخروی کامیابی ہی حقیقی کامیابی ہے۔


آیات 196 - 198