آیت 161
 

وَ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّغُلَّ ؕ وَ مَنۡ یَّغۡلُلۡ یَاۡتِ بِمَا غَلَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفۡسٍ مَّا کَسَبَتۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۱۶۱﴾

۱۶۱۔ اور کسی نبی سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرتا ہے وہ قیامت کے دن اپنی خیانت کی ہوئی چیز کو (اللہ کے سامنے)حاضر کرے گا، پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

تشریح کلمات

غلَّ:

( غ ل ل ) خیانت کرنا۔ کسی چیز کے درمیان گھسنا۔ اسی لیے درختوں کے درمیان چلنے والے پانی کو غلل کہتے ہیں۔ طوق کو بھی غل کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے کسی کے اعضاء کو جکڑ کر وسط میں باندھ دیا جاتا ہے۔ غل کی جمع اغلال ہے۔ الغلول ۔ خیانت۔

تفسیرآیات

۱۔ وَ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّغُلَّ: روایت میں آیا ہے کہ جنگ بدر کے بعد جب غنیمت کا مال تقسیم ہو رہا تھا تو ایک سرخ جبہ غائب ہو گیا۔ اس پر کسی نے کہا: رسول اللہ (ص) نے ہی اسے لیا ہو گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اتنے میں ایک شخص رسول اللہ (ص) کی خدمت میں آیا اور کہا: فلاں شخص نے سرخ جبہ زمین میں دبایا ہے۔ رسول اللہ (ص) نے اس جگہ کو کھودنے کا حکم دیا تو جبہ نکل آیا۔ (شرح نہج البلاغۃ ۱۴: ۱۶۷)

بعض دیگر روایات کے مطابق یہ آیت احد کی جنگ میں ان تیر اندازوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہیں رسول اللہ (ص) نے عقب لشکر کی حفاظت کے لیے درے پر بٹھایا تھا اور انہوں نے اس بدگمانی اور عدم اطمینان کی بنا پر کہ کہیں بعد میں ان کے ساتھ خیانت ہو اور غنیمت میں برابر کا حصہ نہ ملے، رسول اللہ (ص) کی نافرمانی کی اور جگہ چھوڑ دی۔ آیت میں ان لوگوں کی سرزنش کی جا رہی ہے کہ کسی نبی سے اس قسم کی خیانت سرزد نہیں ہو سکتی۔

۲۔ وَ مَنۡ یَّغۡلُلۡ: جو خیانت کرے گا، اسے قیامت کے دن اس چیز کو پیش کرنا پڑے گا جس کی خیانت کی ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

فان الغلول عار و نار شنار علی اہلہ یوم القیامۃ ۔ (مجمع البیان۔ بحار الانوار ۲۱: ۱۷۴ باب ۲۸ غزوۃ حنین۔۔۔۔)

خیانت قیامت کے دن عار و ننگ اور بڑا عیب شمار ہو گی۔

۳۔ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفۡسٍ مَّا کَسَبَتۡ: ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے۔ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ ان کے ساتھ ظلم نہ ہو گا۔ ان کے عمل سے کم ثواب نہیں دیا جائے اور ان کے گناہ سے زیادہ عذاب بھی نہیں دیا جائے گا۔

شیخ طوسی فرماتے ہیں:

آیت کا یہ حصہ ’’ہرشخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیاجائے گا اور اس پر ظلم نہیں کیاجائے گا‘‘، اس نظریۂ جبر کو باطل ثابت کرتا ہے جس کے مطابق اگر اللہ تعالیٰ انبیاء اور مومنین کو عذاب دے تو یہ ظلم نہیں ہو گا۔

اَحۡصٰہَا ۚ وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا ؕ وَ لَا یَظۡلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا (۱۸کہف: ۴۹)

اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ ان سب کو حاضر پائیں گے اور آپ کا رب تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

یعنی ہر شخص کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ نہ دینا ظلم ہے اور ظلم اللہ سے صادر نہیں ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ خیانت کار آخرت کے مؤاخذے سے بچ نہیں سکے گا: یَاۡتِ بِمَا غَلَّ۔

۲۔ کسی شخص کے عمل کے مطابق جزا نہ دینے کو ظلم کہا گیا ہے۔جس سے عقیدہ ٔجبر کی تردید ہوتی ہے۔


آیت 161