آیات 33 - 34
 

اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ بے شک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام عالمین پر برگزیدہ فرمایا ہے۔

ذُرِّیَّۃًۢ بَعۡضُہَا مِنۡۢ بَعۡضٍ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۚ۳۴﴾

۳۴۔ وہ اولاد جو ایک دوسرے کی نسل سے ہیں اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

تشریح کلمات

نوح:

حضرت نوح (ع) بن لامنح پہلے صاحب شریعت، صاحب کتاب اور اولو العزم رسول ہیں۔ آپؑ حضرت آدم (ع) کے بعد دوسرے ابو البشر ہیں۔ یعنی طوفان کے بعد موجودہ انسانی نسل کے ابو البشر آپ(ع) ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کی دسویں پشت میں سے تھے۔ آپ (ع) موجودہ عراق کے بالائی علاقے کے رہنے والے تھے۔ ۹۵۰ سال زندگی گزاری۔

آل:

اس لفظ کی تشریح سورۂ بقرہ آیت ۴۹ کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

عمران:

اس نام کی دو شخصیات گزری ہیں۔ ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد۔ بائبل میں ان کا نام عمرام آیا ہے اور دوسرے حضرت مریم (س)کے والد ماجد۔ اس آیہ شریفہ میں دونوں عمران مراد لیے جا سکتے ہیں۔ تاہم قرین قیاس یہ ہے کہ مراد حضرت مریم (س) کے والد ماجد ہوں، کیونکہ سلسلہ کلام حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے بارے میں ہے۔ اناجیل میں حضرت مریم (س) کے والدین کا نام مذکور نہیں ہے۔ تاہم مسیحی روایت میں حضرت مریم (س) کے والد کا نام یوآخیم آیا ہے۔

ذُرِّیَّۃًۢ:

(ذ رء) خلقت۔ اصل میں اس سے خرد سال اولاد مراد ہے، لیکن چھوٹی بڑی سب اولاد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

خداوند عالم کسی ہستی کو انسانیت کی رہبری اور ہدایت کے لیے برگزیدہ فرماتا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اسے اتفاقیہ طور پر بلا وجہ اور بلا حکمت و سبب انتخاب کرتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے غیبی علم کے ذریعے جانتا ہے کہ کون سی ہستی کس اہلیت کی مالک ہے۔ صرف علم خدا سے بھی برگزیدہ ہونے کا استحقاق پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسے امتحانی مراحل سے گزارا جاتا ہے، پھر مقام اصطفیٰ پر فائز کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے:

اِذَا اَحَبَّ اللہُ عَبْداً ابْتَلَاہُ فَاِنْ صَبَرَاجْتَبَاہُ وَ اِنْ رَضِیَ اصْطَفَاہُ ۔ (مستدرک الوسائل ۲: ۴۲۷)

جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے آزمائش میں ڈالتا ہے۔ پس اگر اس نے صبر کیا تو اسے پسندیدہ قرار دیتا ہے، پھر جب اس امتحان پر راضی ہوتا ہے تو خصوصی طور پر برگزیدہ فرماتا ہے۔

اس مختصر سی آیت میں انبیاء اور ہادیان برحق کا پورا سلسلہ بیان فرمایا:

۱۔ یہ سلسلۂ ہدایت حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت نوح علیہ السلام تک اولاد آدم میں جاری رہا۔

۲۔دوسرا مرحلہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے شروع ہوا۔ عہد نوح علیہ السلام میں انسان کو شریعت اور دستور حیات عطا کیا گیا:

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا ۔۔۔۔ (۴۲ شوریٰ: ۱۳)

اس نے تمہارے لیے دین کا وہی دستور معین کیا جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا۔

یہ سلسلہ اولاد نوح میں جاری رہا۔ چنانچہ ارشاد ہوتاہے:

وَ جَعَلۡنَا ذُرِّیَّتَہٗ ہُمُ الۡبٰقِیۡنَ ﴿۫﴾ وَ تَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿۫﴾ سَلٰمٌ عَلٰی نُوۡحٍ فِی الۡعٰلَمِیۡنَ﴿﴾ (۳۷ صافات: ۷۷ تا ۷۹)

اور ان کی نسل کو ہم نے باقی رہنے والوں میں رکھا اور ہم نے آنے والوں میں ان کے لیے (ذکر جمیل) باقی رکھا۔ تمام عالمین میں نوح پر سلام ہو۔

۳۔ تیسرا مرحلہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوا اور اولاد اسحاق علیہ السلام میں یہ سلسلہ جاری رہا۔

۴۔ چوتھامرحلہ آل عمران سے شروع ہوا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کتاب اور شریعت دی گئی۔

۵۔ پانچواں مرحلہ حضرت خاتم الانبیاء (ص) سے شروع ہوا۔ یہاں سلسلۂ نبوت ختم ہوا۔ البتہ سلسلہ ہدایت ہنوز جاری ہے اور تا قیامت یہ سلسلہ آل محمد (ص) میں جاری رہے گا۔

ذُرِّیَّۃًۢ بَعۡضُہَا مِنۡۢ بَعۡضٍ: انبیاء کا سلسلہ نسل در نسل جاری رہا۔ چنانچہ نوح، آدم علیہما السلام کی ذریت ہے اور آل ابراہیم، نوح علیہما السلام کی ذریت ہے اور آل عمران، ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ محمد و آل محمد آل علیہم السلام ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔

یہ بات اب روز روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ اولاد اپنے آباء و اجداد سے اوصاف حمیدہ اور نیک خصلتیں وراثت میں لیتی ہے اور وراثت ہی واحد ذریعہ ہے، جس کے ذریعے پے در پے آنے والی نسلوں میں امامت و رہبری کے لیے لازم خصلتوں کو منتقل اور محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بار امانت کو ایک خاص نسلی تسلسل میں ودیعت فرمایا ہے، جس کا ذکر اس آیت اور دیگر آیتوں میں مکرر آیا ہے۔

قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿﴾ (۲ بقرہ: ۱۲۴)

ابراہیم نے کہا: میری اولاد سے بھی (امام ہوں گے) فرمایا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ (۲۹ عنکبوت: ۲۷)

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے اور ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ (۵۷ حدید: ۲۶)

اور ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔

آپ نے دیکھا اللہ تعالیٰ نے اس بار امانت کو نسل ابراہیمی سے باہر نہیں رکھا۔ چونکہ امامت و رہبری میں خاندانی نجابت اور ظرف کی طہارت کا بہت بڑا دخل ہے۔ حدیث رسولؐ میں آیاہے:

۔۔۔ثم اخرجنا الی اصلاب الآباء و ارحام الامہات و لایصیبنا نجس الشرک و لا سفاح الکفر ۔ (علل الشرائع ۱: ۲۰۸)

۔۔۔ پھر ہم کو آباء و اجداد کی پشتوں سے ماؤں کے رحموں میں منتقل کیا۔ نہ شرک کی نجاست ہمارے نزدیک آئی، نہ کفر کی ناپاکی۔

مامون نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے پوچھا: کیا عترت کو دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل ہے؟ امام نے فرمایا:

ان اللہ فضل العترۃ علی سائر الناس فی محکم کتابہ ۔ (عیون اخبار ۱: ۲۲۸)

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی صریح (آیات) میں عترت کو دوسرے لوگوں پر فضیلت دی ہے۔

مامون نے کہا: کتاب اللہ میں یہ بات کہاں ہے؟ امام علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

اہم نکات

۱۔ خدا نے مذکورہ ہستیوں کو اہلیت اور استحقا ق کی وجہ سے برگزیدہ فرمایا۔


آیات 33 - 34