آیت 35
 

اِذۡ قَالَتِ امۡرَاَتُ عِمۡرٰنَ رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطۡنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۳۵﴾

۳۵۔ (وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا: میرے رب! جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں، وہ(اور باتوں سے) آزاد ہو گا ، تو میری طرف سے قبول فرما، بے شک تو بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

تشریح کلمات

نَذَرۡ:

( ن ذ ر ) کسی حادثے کی وجہ سے غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کر لینا۔(راغب)بنی اسرائیل میں اولاد نذر کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ہونے والا بچہ ہیکل کی جاروب کشی اور مجاوری میں عمر بسر کرے گا۔

تفسیر آیات

عمران کی عورت یعنی حضرت مریم (س) کی والدہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نانی کا نام حنہ تھا۔ شام میں ان کا مدفن کلیسائے حنہ کے نام سے مشہور ہے۔ بعض دیگر روایات کے مطابق ان کا نام حسنہ بنت فاقود تھا۔ عمران کی عورت سے مراد آل عمران کی عورت نہیں، عمران کی بیوی ہی ہو سکتی ہے، کیونکہ قرآن کی تعبیر کے مطابق یہ ترکیب بیوی کے لیے استعمال ہوتی ہے: امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا (۱۲ یوسف: ۳۰)، امۡرَاَتُ فِرۡعَوۡنَ (۲۸ قصص: ۹) امۡرَاَتَ نُوۡحٍ (۶۶ تحریم: ۱۰) وغیرہ۔ بنا بر ایں معلوم ہوا، حضرت مریم (س) کے والد کا نام عمران تھا۔ اس صراحت کے مقابلے میں وہ مسیحی روایت بے اہمیت ہو جاتی ہے جس میں ان کا نام یواخیم ذکر ہوا ہے نیز سورۂ تحریم میں صراحت سے بیان ہوا ہے کہ حضرت مریم کے والد عمران تھے:

وَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا ۔۔۔۔۔ (۶۶ تحریم: ۱۲)

اور مریم بنت عمران کو بھی (اللہ مثال کے طور پر پیش کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی۔۔۔۔

ان تمام صراحتوں کے باوجود بعض اہل قلم کو یقین حاصل نہیں ہوتا کہ حضرت مریم کے والد کا نام عمران تھا۔(ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ۱: ۲۴۷)

مُحَرَّرًا:

یعنی ذاتی مفاد میں نہیں۔ کنیسہ کی مجاورت کے ساتھ مختص ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ مریم بنت عمران کی اولاد کو آل عمران کہا گیا تو فاطمہ بنت محمد (ص) کی اولاد کو آل محمد(ع) کیوں نہیں کہا جا سکتا۔


آیت 35