آیت 61
 

اَمَّنۡ جَعَلَ الۡاَرۡضَ قَرَارًا وَّ جَعَلَ خِلٰلَہَاۤ اَنۡہٰرًا وَّ جَعَلَ لَہَا رَوَاسِیَ وَ جَعَلَ بَیۡنَ الۡبَحۡرَیۡنِ حَاجِزًا ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ؕ۶۱﴾

۶۱۔ (یہ بت بہتر ہیں) یا وہ جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے بیچ میں نہریں بنائیں اور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان ایک آڑ بنائی؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔

تفسیر آیات

اس آیہ شریفہ میں تخلیق و تنظیم سے مربوط چار اہم چیزوں کا ذکر ہے جن سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تخلیق و تدبیر دو مختلف چیزیں نہیں ہیں :

۱۔ اَمَّنۡ جَعَلَ الۡاَرۡضَ قَرَارًا: زمین خلق کرنے کے بعد اسے جائے استقرار کس نے بنایا؟ ظاہر ہے جس نے زمین کو خلق فرمایا اسی نے زمین کو اس طرح خلق فرمایا کہ اس میں استقرار آ جائے، قابل سکونت ہو اور اضطراب نہ ہو۔

۲۔ وَّ جَعَلَ خِلٰلَہَاۤ اَنۡہٰرًا: زمین کو نشیبی صورت میں خلق فرمایا۔ اس طریقہ تخلیق سے نہروں میں روانی آ گئی۔ دریا بہنا شروع ہو گئے۔ اگر زمین ہموار ہوتی تو پانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہ ہوتا۔

۳۔ وَّ جَعَلَ لَہَا رَوَاسِیَ: پہاڑوں کی تخلیق کی وجہ سے زمین کو اضطراب سے محفوظ کر دیا اور ساتھ برف کے ذریعے پانی کو ذخیرہ کر دیا۔ اگر پہاڑوں کی تخلیق نہ ہوتی تو زندگی منظم نہ ہوتی۔

۴۔ وَ جَعَلَ بَیۡنَ الۡبَحۡرَیۡنِ حَاجِزًا: دو سمندروں کے درمیان ایک آڑ بنائی۔

آیت کے اس حصے کی ایک تشریح یہ کی جاتی ہے کہ دونوں سمندر اپنے کیمیکل مواد اور نمک کی وجہ سے جو پانی میں حل ہو گئے ہیں ایک دوسرے سے مخلوط نہیں ہوتے۔ جیسے تیل اور پانی لیکن اس تفسیر میں کوئی تدبیری نکتہ نہیں ہے۔

اس کی ایک تفسیر قاموس قرآن نے اختیار کی ہے جو اگرچہ سیاق آیت سے چنداں نزدیک نہیں ہے تاہم اس میں ایک اہم تدبیری نکتہ موجود ہے جو آیت کی غرض و غایت کے نزدیک ہے۔

کہتے ہیں : ایک سمندر زمین کی پشت پر ہے اور ایک دوسرا سمندر زمین کی شکم میں ہے۔ زیر زمین پانی کو ہم کنویں ، ٹیوب ویل کے ذریعے اوپر لاتے ہیں اور چشمے پھوٹنے سے بھی یہ پانی روئے زمین پر آتا ہے۔ ان دونوں سمندروں کے درمیان زمین ایک آڑ ہے جس سے زمین پر موجود پانی سے زیر زمین پانی نمکین یا تلخ نہیں ہوتا۔ لہٰذا حَاجِزًا آڑ سے مراد زمین ہے جس پر صاحب قاموس قرآن کو یقین حاصل ہے۔


آیت 61