آیت 40
 

قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ یَّرۡتَدَّ اِلَیۡکَ طَرۡفُکَ ؕ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسۡتَقِرًّا عِنۡدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنۡ فَضۡلِ رَبِّیۡ ۟ۖ لِیَبۡلُوَنِیۡۤ ءَاَشۡکُرُ اَمۡ اَکۡفُرُ ؕ وَ مَنۡ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیۡ غَنِیٌّ کَرِیۡمٌ﴿۴۰﴾

۴۰۔ جس کے پاس کتاب میں سے کچھ علم تھا وہ کہنے لگا: میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں، جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس نصب شدہ دیکھا تو کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفر ان اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب یقینا بے نیاز اور صاحب کرم ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡکِتٰبِ: جس کے پاس کتاب میں سے کچھ علم تھا وہ کہنے لگا: میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کر دیتا ہوں۔

یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پلک جھپکنے کی دیر میں کیسے ممکن ہوا کہ کوئی ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلے سے یہ تخت حاضر کر دے۔ ایسا تو آج کے جوہری دور میں بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ سوال اللہ کی کن فیکونی طاقت کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ سائنسی نقطہ نظر سے بھی درست نہیں ہے۔ کیونکہ بقول آئن سٹائن: انسان کو مکان و زمان میں محدود سمجھنا ایک مفروضہ ہے نیز نظریہ اضافت کے لحاظ سے زمان ہر جگہ یکساں نہیں ہے۔ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے کے دس منٹ ساکن لوگوں کے سینکڑوں سال کے برابر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ معراج کی بحث میں ہم نے بیان کیا ہے لیکن ہم اس مسئلے کی توجیہ نظریہ اضافت وغیرہ سے نہیں کرتے۔ ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سائنسی مفروضے کے تحت بھی ایسا عمل ناممکن نہیں ہے۔

قرآن کی صراحت موجود ہے کہ یہ قدرت جس شخص کے پاس تھی اس کی بنیاد علم تھا اور اس علم کا ماخذ الکتاب ہے اگرچہ ہمیں اس علم اور الکتاب کی نوعیت کا علم نہیں ہے تاہم اس آیت میں علم کی طاقت کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ اس شخص نے اپنے دعویٰ کو جامہ عمل پہناتے ہوئے چشم زدن میں اس عظیم تخت کو حاضر کر دیا۔

انسان کو اب تک دور سے آواز اور تصاویر چشم زدن میں حاضر کرنے کا طریقہ آ گیا ہے۔ اجسام حاضر کرنے کا طریقہ ابھی نہیں آیا۔ آیت سے معلوم ہوا اس قسم کا علم بھی موجود ہے جس سے اجسام کو دور سے چشم زدن میں حاضر کرنا ممکن ہے۔

۲۔ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسۡتَقِرًّا عِنۡدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنۡ فَضۡلِ رَبِّیۡ: جب تخت حاضر پایا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس علمی کارنامے کو اللہ کا فضل قرار دیا، تخت کے حصولی کو نہیں چونکہ مال و دولت کو تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے پہلے ہی بڑی حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔ لہٰذا یہ فَضۡلِ رَبِّیۡ، مما اتانی اللہ ہے جو علم و کمال کی دولت ہے۔ مما اتاکم نہیں ہے جس پر دوسروں کو ناز ہے۔

۳۔ لِیَبۡلُوَنِیۡۤ ءَاَشۡکُرُ اَمۡ اَکۡفُرُ: تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں۔ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ اس قسم کے کمالات کی نعمت اللہ کی طرف سے ایک امتحان ہوتا ہے۔ وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۳۵) اللہ شر اور خیر دونوں کے ذریعہ آزماتا ہے۔

۴۔ وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ: جو شکر کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے چونکہ شکر کرنا خود اپنی جگہ اہم قدروں میں سے ایک قدر ہے۔ اس قدر کا مالک ہونا خود اپنی جگہ ایک کمال ہے۔ ثانیاً شکر کا نتیجہ خود شکر کرنے والے کے حق میں ہوتا ہے۔ جس کا شکر کیا جاتا ہے اس کے حق میں صرف اتنا ہے کہ وہ اس شکر پر خوش ہو گا۔ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ ۔۔۔۔ (۱۴ ابراہیم: ۷) اگر تم شکر کرو تو میں تمہارے لیے اور زیادہ عنایت کروں گا۔ لہٰذا شکر نعمت باعث مزید نعمت ہے: اِنۡ اَحۡسَنۡتُمۡ اَحۡسَنۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ ۔۔۔۔ (۱۷ اسراء: ۷ (ترجمہ) اگر تم نے نیکی کی تو اپنے لیے نیکی کی۔)

اہم نکات

۱۔ علم کی طاقت سب سے بڑی ہے۔

۲۔ انسان ابھی علم انبیاء کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

۳۔ نعمتیں آزمائش ہیں۔ شکر کے ذریعے اس میں کامیابی ممکن ہے۔

۴۔ شکر کا فائدہ خود شکر گزار کے لیے ہے۔


آیت 40