آیت 8
 

فَلَمَّا جَآءَہَا نُوۡدِیَ اَنۡۢ بُوۡرِکَ مَنۡ فِی النَّارِ وَ مَنۡ حَوۡلَہَا ؕ وَ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۸﴾

۸۔ جب موسیٰ آگ کے پاس پہنچے تو ندا دی گئی: بابرکت ہو وہ (جس کا جلوہ) آگ کے اندر ہے اور (بابرکت ہو) وہ جو اس کے پاس ہے اور پاکیزہ ہے سارے جہاں کا رب اللہ۔

تفسیر آیات

۱۔ اَنۡۢ بُوۡرِکَ مَنۡ فِی النَّارِ: حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچ جاتے ہیں تو ندا آتی ہے: بابرکت ہو وہ جو آگ میں ہے۔ جس کی تجلی آگ میں ہے۔ وہ نہ خود آگ میں ہے، نہ آگ کے گرد و پیش میں۔ وہ کسی مکان میں نہیں ہو سکتا۔

۲۔ وَ مَنۡ حَوۡلَہَا: اور بابرکت ہے وہ جو آگ کے گرد و پیش میں ہے۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام، وہ ذات جو ندا دے رہی ہے اور وہ جو یہ ندا سن رہا ہے، دونوں بابرکت ہیں۔ البتہ اللہ بذات خود بابرکت ہے اور موسیٰ علیہ السلام اللہ کی طرف سے بابرکت ہو گئے۔ پہلے برکت دینے اور لینے والے کی بات ہو گئی۔ چونکہ جب اللہ تعالیٰ انسانوں کی سعادت کے لیے کسی نبی کو مبعوث اور ہدایت کے لیے کسی کتاب و شریعت کو نازل فرماتا ہے تو اللہ مقام خیر و برکت میں ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

رَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ﴿﴾ (۲۵ فرقان: ۱)

بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ سارے جہاں والوں کے لیے انتباہ کرنے والا ہو۔

سُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ: اس جملے سے اللہ کے جسم و جسمانیات سے پاک ہونے کی وضاحت فرمائی۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے درخت میں حلول کیا یا درخت کو اپنا مستقر بنایا ہو یا اس کا وجود روشنی کی شکل میں کسی حاسہ بصر میں سمویا گیا ہو۔ ان تمام مخلوقات کی صفات سے پاک ذات ہے۔


آیت 8