آیات 221 - 223
 

ہَلۡ اُنَبِّئُکُمۡ عَلٰی مَنۡ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیۡنُ﴿۲۲۱﴾ؕ

۲۲۱۔ کیا میں تمہیں خبر دوں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں؟

تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیۡمٍ﴿۲۲۲﴾ۙ

۲۲۲۔ ہر جھوٹے بدکار پر اترتے ہیں۔

یُّلۡقُوۡنَ السَّمۡعَ وَ اَکۡثَرُہُمۡ کٰذِبُوۡنَ﴿۲۲۳﴾ؕ

۲۲۳۔ وہ کان لگائے رکھتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہیں۔

تشریح کلمات

اَفَّاکٍ:

( ا ف ک ) الافک ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیر دی گئی ہو۔

اَثِیۡمٍ:

( ا ث م ) الاثم وہ اعمال و افعال ہیں جو ثواب سے روکنے والے ہوں جس کا ترجمہ ’’گناہ‘‘ سے کیا جاتا ہے۔

تفسیر آیات

ہَلۡ اُنَبِّئُکُمۡ: آیت ۲۱۰ میں فرمایا کہ یہ قرآن شیاطین کی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ شیاطین اور قرآن میں کوئی تناسب نہیں ہے۔

اس آیت میں فرمایا: شیاطین کا تناسب کن لوگوں کے ساتھ ہے۔ شیاطین کے افکار ان کاہنوں کے ساتھ ملتے ہیں جو دروغ بافی کرتے ہیں۔ اَفَّاکٍ ہیں، خودساختہ باتیں کرتے ہیں۔ اَثِیۡمٍ ہیں، جرائم پیشہ ہیں۔ لوگوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ان کو غیب کی باتیں کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں۔

یُّلۡقُوۡنَ السَّمۡعَ: القاء السمع کان لگا کر سننے کو کہتے ہیں۔ فرمایا: یہ لوگ کان لگا کر سنتے ہیں۔ کون لوگ کس سے سنتے ہیں؟ دو رائے ہیں: ایک یہ کہ یہ کاہن شیاطین کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں پھر ان باتوں کو حقیقت کا روپ دے کر لوگوں سے بیان کرتے ہیں جو بیشتر جھوٹی ہیں۔

دوسری رائے یہ ہے کہ شیاطین کان لگائے بیٹھتے ہیں کہ فرشتوں سے کوئی معلومات ہاتھ آئیں۔ اگر کوئی ایک آدھ جملہ ہاتھ آ جائے تو اسے کاہنوں کو بتا دیتے ہیں۔ ان میں بھی اکثر جھوٹ پر مبنی ہیں۔

سیاق آیت کے مطابق پہلی رائے قابل ترجیح ہے چونکہ اَکۡثَرُہُمۡ کٰذِبُوۡنَ کاہنوں کے بارے میں ہے۔ اس جملے سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ان کاہنوں کی ایک آدھ بات صحیح نکل آتی ہے جس کی بنیاد پر ان کے جھوٹ کے لیے مارکیٹ بن جاتی ہے۔


آیات 221 - 223