آیات 217 - 220
 

وَ تَوَکَّلۡ عَلَی الۡعَزِیۡزِ الرَّحِیۡمِ﴿۲۱۷﴾ۙ

۲۱۷۔ اور بڑے غالب آنے والے مہربان پر بھروسہ رکھیں۔

الَّذِیۡ یَرٰىکَ حِیۡنَ تَقُوۡمُ﴿۲۱۸﴾ۙ

۲۱۸۔ جو آپ کو اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب آپ (نماز کے لیے) اٹھتے ہیں۔

وَ تَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیۡنَ﴿۲۱۹﴾

۲۱۹۔ اور سجدہ کرنے والوں میں آپ کی نشست و برخاست کو بھی۔

اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۲۲۰﴾

۲۲۰۔ وہ یقینا بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

تفسیر آیات

اس دعوت کے بعد پیش آنے والی مشکلات کے لیے اس ذات پر بھروسہ کرو جس کے یہ اوصاف ہیں:

۱۔ الۡعَزِیۡزِ: بالادست غالب آنے والا ہے۔ ہر سازش، ہر طاقتور دشمن کی دشمنی پر غالب آنے والا ہے۔

۲۔ الرَّحِیۡمِ: وہ غالب آنے والا ہونے کے ساتھ مہربان بھی ہے۔ اس ذات پر بھروسہ کرنے میں لطف آنا چاہیے جو عین طاقت ہونے کے ساتھ مہربان بھی ہے ورنہ طاقتور بے رحم ہوا کرتے ہیں۔

۳۔ الَّذِیۡ یَرٰىکَ: جو آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے:

الف: حِیۡنَ تَقُوۡمُ: جب آپ تہجد کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو رات کی تاریکی میں وہی مہرباں ذات ہے جو آپ کو دیکھ رہی ہے یا رسالت کا بوجھ اٹھا کر قیام کرتے ہیں تو اللہ آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ آپ اللہ کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔

ب: وَ تَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیۡنَ: بعثت کے ابتدائی دنوں کی بات معلوم ہو رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے تائید و حوصلہ دیا جا رہا ہے کہ آپؐ اپنی تبلیغ رسالت میں اللہ پر بھروسہ کریں۔ اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے خواہ آپ اکیلے نماز پڑھ رہے ہوں یا سجدہ گزاروں میں ہوں یعنی ہر حالت میں آپ ہماری نگرانی میں ہیں۔

اس آیت کی ایک تفسیر تو یہی ہے کہ ساجدین سے مراد نماز گزار لوگ ہیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نشست و برخاست فرماتے تھے۔

دوسری تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ روایت میں آیا ہے:

جب تہجد کی نماز کا وجوب منسوخ ہو گیا تو اس رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل ایمان کے گھروں کو ان کا حال دیکھنے تشریف لے گئے تو ذکر و تلاوت کی آواز اس طرح آرہی تھی جیسے شہد کی مکھیوں کی آوازیں ہیں۔

اس روایت کے تحت آیت کا یہ مفہوم بنتا ہے کہ اللہ آپؐ کی رفت و آمد کو بھی دیکھ رہا ہے جو آپؐ سجدہ گزاروں کے درمیان کرتے ہیں۔

تیسری تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ اللہ آپ کے سجدہ گزار آباء و اجداد میں منتقل ہونے کو دیکھ رہا تھا۔ اس تفسیر کے مطابق شیعہ و سنی مصادر میں روایات موجود ہیں۔

تفسیر قرطبی اور الدر المنثور میں ابن عباس کی یہ روایت ہے:

ھی فی اصلاب الاباء آدم و نوح و ابراہیم حتی اخرجہ نبیاً ۔

یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء آدم، نوح، ابراہیم علیہم السلام کے بارے میں ہے یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی بنا کر (اپنے پدر کے صلب سے) پیدا کیا۔

شیعہ امامیہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد سب مومن موحد تھے۔

اہم نکات

۱۔اللہ اپنے رسول کو اپنی خاص نگرانی میں رکھتا ہے۔


آیات 217 - 220