آیت 15
 

اِذۡ تَلَقَّوۡنَہٗ بِاَلۡسِنَتِکُمۡ وَ تَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِکُمۡ مَّا لَیۡسَ لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ وَّ تَحۡسَبُوۡنَہٗ ہَیِّنًا ٭ۖ وَّ ہُوَ عِنۡدَ اللّٰہِ عَظِیۡمٌ﴿۱۵﴾

۱۵۔ جب تم اس جھوٹی خبر کو اپنی زبانوں پر لیتے جا رہے تھے اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہ رہے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہ تھا اور تم اسے ایک معمولی بات خیال کر رہے تھے جب کہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی بات ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِذۡ تَلَقَّوۡنَہٗ بِاَلۡسِنَتِکُمۡ: اس وقت تم عذاب عظیم سے دوچار ہو جاتے جب تم اس تہمت کو زبان زد عام کر رہے تھے اور کسی علمی سند کے بغیر صرف وہم و گمان پر اس بہتان کو رواج دے رہے تھے۔

۲۔ وَّ تَحۡسَبُوۡنَہٗ ہَیِّنًا: اور ساتھ اس عظیم گناہ کے بارے میں تمہیں احساس گناہ بھی نہ تھا اور اسے معمولی سمجھ رہے تھے۔ اول تو کسی بھی مؤمن کے خلاف بہتان لگانا گناہ ہے۔ گناہ کو گناہ نہ سمجھنا، خود اپنی جگہ قابل سرزنش گناہ ہے اور اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

۳۔ وَّ ہُوَ عِنۡدَ اللّٰہِ: جب کہ یہاں ناروا نسبت کا تعلق ام المؤمنین سے ہے اور اس سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دل اندوہ ناک ہوتا ہے اور رسالت بھی متاثر ہوتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ کسی پر بہتان لگا کر اس کا وقار مجروح کرنا عظیم گناہ ہے: وَّ ہُوَ عِنۡدَ اللّٰہِ عَظِیۡمٌ ۔


آیت 15