آیت 12
 

لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِہِمۡ خَیۡرًا ۙ وَّ قَالُوۡا ہٰذَاۤ اِفۡکٌ مُّبِیۡنٌ﴿۱۲﴾

۱۲۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہ کیا اور کیوں نہیں کہا کہ یہ صریح بہتان ہے؟

تفسیر آیات

ان آیات میں اس قسم کی بہتان بازی کی صورت میں سننے اور بہتان لگانے والے، دونوں کے لیے ہدایات ہیں:

۱۔ لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ: اس قسم کا بہتان سننے کی صورت میں مؤمنین اور مؤمنات کو چاہیے تھا کہ نیک گمان کریں اور اسے کھلا بہتان قرار دیں۔

بِاَنۡفُسِہِمۡ کی تین تفسیریں ہو سکتی ہیں:

بِاَنۡفُسِہِمۡ سے مراد فی بِاَنۡفُسِہِمۡ ہو سکتا ہے۔ تم نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہ کیا؟

ii۔ تم نے اپنی ملت، اپنے معاشرے کے لوگوں سے نیک گمان کیوں نہ کیا؟ جیسا کہ سورۃ الحجرات میں فرمایا:

وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ۔۔۔ (۴۹ حجرات: ۱۱)

اور آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگایا کرو۔

اسی طرح

وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ۔۔۔ (۴ نساء: ۲۹)

اور تم اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔

فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ ۔۔۔ (۲۴ نور: ۶۱)

اور جب تم کسی گھرمیں داخل ہو تو اپنے آپ پر سلام کیا کرو۔

iii۔ تم نے خود اپنے بارے میں نیک گمان کیوں نہ کیا کہ اگر خود تمہارے ساتھ ایسا واقعہ پیش آتا تو تم ام المؤمنین کے ساتھ کیا سلوک کرتے۔ یہ کیوں نہیں سوچا کہ کیا انسان اپنی ماں کے بارے میں اس قسم کی بات سوچ سکتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ کسی پر بہتان کی بات سن کر نیک گمان کرنا چاہیے، نہ بدگمانی: بِاَنۡفُسِہِمۡ خَیۡرًا ۔۔۔۔


آیت 12