آیت 11
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَۃٌ مِّنۡکُمۡ ؕ لَا تَحۡسَبُوۡہُ شَرًّا لَّکُمۡ ؕ بَلۡ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ لِکُلِّ امۡرِیًٴ مِّنۡہُمۡ مَّا اکۡتَسَبَ مِنَ الۡاِثۡمِ ۚ وَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی کِبۡرَہٗ مِنۡہُمۡ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔ جو لوگ بہتان باندھ لائے وہ یقینا تمہارا ہی ایک دھڑا ہے، اسے اپنے لیے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لیے اچھا ہے، ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کے لیے اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے بڑا حصہ لیا ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔

تشریح کلمات

الافک:

( ا ف ک ) ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیر دی گئی ہو۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لیے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے۔

عُصۡبَۃٌ:

( ع ص ب ) وہ جماعت جس کے افراد ایک دوسرے کے حامی اور مدد گار ہوں۔

تفسیر آیات

یہ واقعہ کسی زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متعلق ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ زوجہ ماریہ قبطیہ ہے۔

مشہور یہ ہے کہ یہ واقعہ حضرت عائشہ سے متعلق ہے۔ واقعہ کی راوی خود حضرت عائشہ ہیں۔ فرماتی ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب سفر پر نکلتے تو اپنی زوجات میں سے قرعے کے ذریعے ایک کا انتخاب کر کے اسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ ایک غزوہ کے موقع پر قرعہ میرے نام نکلا۔ یہ واقعہ حکم حجاب نازل ہونے کے بعد کا تھا۔ مجھے اپنے ہودے میں اٹھایا اور بٹھایا جاتا تھا۔ واپسی پر جب مدینہ کے نزدیک پہنچے تو رات کو چلنے کا اعلان ہوا تو میں اٹھ کر رفع حاجت کے لیے لشکر سے دور نکل گئی۔ جب میں واپس آئی تو پتہ چلا کہ میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر گر گیا ہے۔ میں اس ہار کو تلاش کرنے میں لگ گئی۔ ادھر قافلہ والوں نے میرے ہودے کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا۔ ان کا خیال تھا میں ہودے کے اندر موجود ہوں۔ اس زمانے میں عورتیں غذا کی کمی وجہ سے ہلکی ہوتی تھیں اس لیے انہیں محسوس نہ ہوا کہ میں اس میں نہیں ہوں۔ جب میں واپس پلٹی تو وہاں کوئی نہ تھا۔ میں اپنی چادر اوڑھ کر وہیں لیٹ گئی اور سوچ لیا کہ وہ جب انہیں ہودے میں نہیں پائیں گے تو خود ہی تلاش کرنے آ جائیں گے۔ اتنے میں مجھے نیند آگئی۔

صبح کے وقت صفوان بن معطل سلمی کا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا چونکہ حجاب کا حکم آنے سے پہلے وہ مجھے کئی بار دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ انہوں نے اپنا اونٹ میرے پاس بٹھا دیا۔ دوپہر کے قریب ہم نے لشکر کو جا لیا۔

اس پر کچھ لوگوں نے حضرت عائشہ پر بہتان تراشنا شروع کیا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد شہر میں اس بہتان کی خبریں ہر طرف پھیل گئیں۔

۱۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَۃٌ مِّنۡکُمۡ: جن لوگوں نے یہ بہتان گھڑا ہے وہ خود تمہارے اندر کا ایک ٹولہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا افک (بہتان) کے مرتکب ایک نہیں کئی افراد تھے۔ مِّنۡکُمۡ سے معلوم ہوا وہ مسلمانوں کی جماعت کے اندر موجود لوگ ہیں۔

اصحاب افک (بہتان کا چرچا کرنے والے) کون تھے۔

حضرت عائشہ کے خلاف تہمت لگانے والے درج ذیل افراد کا ذکر ملتا ہے:

عبد اللہ بن أبی جو منافقوں کا سردار تھا۔

ii۔ زید بن رفاعہ جو قابل قدرشخصیت کا مالک نہ تھا۔

iii۔ مسطح بن اثاثہ سابقین اولین اور بدری ہیں۔ حضرت ابوبکر کی خالہ کا بیٹا اور یتیم ہونے کی وجہ سے نہایت محتاج تھا۔ حضرت ابوبکر اس کی ہمیشہ کمک کرتے تھے۔ واقعہ افک میں ملوث ہونے کی وجہ سے حضرت ابوبکر نے اس کی کمک بند کر دی جس پر یہ آیت نازل ہوئی:

وَ لَا یَاۡتَلِ اُولُوا الۡفَضۡلِ مِنۡکُمۡ وَ السَّعَۃِ ۔۔۔۔ (ملاحظہ ہو الدار المنثور ذیل آیت ۲۴ نور : ۲۲)

تم میں سے جو لوگ احسان کرنے والے اور (مال و دولت میں) وسعت والے ہیں۔۔۔۔

iv۔ حسان بن ثابت شاعر رسول، یہ بھی بدری ہیں۔

حمنہ بنت جحش ۔ حضرت زینب بنت جحش زوجہ رسول کی بہن۔

کشاف نے ان افراد کے ذکر کے بعد کہا ہے: ومن ساعدھم اور وہ لوگ جنہوں نے ان افراد کی مدد کی یعنی اس تہمت میں مدد کی لیکن کسی اور کا نام نہیں ملتا۔

مصادر میں آیا ہے کہ ان میں سے صرف آخری تین افراد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قذف کی حد جاری فرمائی۔ پہلے دو پر حد جاری نہیں فرمائی۔

۲۔ لَا تَحۡسَبُوۡہُ شَرًّا لَّکُمۡ: اس واقعہ میں شر کا پہلو صرف چند افراد تک محدود تھا۔ باقی کل امت کے لیے اس قسم کے واقعات میں خیر کا پہلو زیادہ ہے۔ اسی لیے مؤمنین سے خطاب فرمایا۔خیر کا پہلو یہ ہے: اس قسم کے واقعات میں اور وہ بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ سے مربوط ہو، ایک طریقہ سامنے آتا ہے کہ اس کا کس طرح سامنا کرنا چاہیے۔ چنانچہ اس تہمت پر ایک ماہ تک کوئی رد عمل ظاہر نہیں ہوا، نہ کوئی جذباتی ردعمل دیکھنے میں آیا، نہ کسی قسم کا انتقامی قدم اٹھایا جاتا ہے۔

دوسری طرف اس واقعہ کی وجہ سے ایک قانون اور اخلاقی ضابطہ حیات وجود میں آیا اور ان دس آیات میں وہ اخلاقی و شرعی نکات بیان فرمائے جن کا اظہار ایسے واقعات میں اسلامی معاشرہ کو چاہیے۔

۳۔ لِکُلِّ امۡرِیًٴ مِّنۡہُمۡ مَّا اکۡتَسَبَ مِنَ الۡاِثۡمِ: جس نے جتنا حصہ لیا اتنا گناہ اس کے ذمے ہے۔ اس واقعہ میں موجود شر کے پہلو کا ذکر ہے جو چند افراد تک محدود ہے۔

۴۔ وَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی کِبۡرَہٗ مِنۡہُمۡ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ: جس نے اس بہتان تراشی میں بڑا حصہ اپنے ذمے لیا یعنی اس بہتان کو اٹھانے میں سب سے زیادہ جس نے کردار ادا کیا۔ اس کے لیے عذاب عظیم ہے۔ بہت سے اہل سنت کے مصادر میں آیا ہے کہ اس سے مراد عبداللّٰہ بن ابی ہے۔ بعض نے حسان بن ثابت کو اس کا مصداق قرار دیا ہے لیکن اکثر نے اسے رد کیا ہے۔


آیت 11