آیات 105 - 108
 

اَلَمۡ تَکُنۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَکُنۡتُمۡ بِہَا تُکَذِّبُوۡنَ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ کیا تم وہی نہیں ہو کہ جب میری آیات تمہیں سنائی جاتیں تو تم انہیں جھٹلاتے تھے؟

قَالُوۡا رَبَّنَا غَلَبَتۡ عَلَیۡنَا شِقۡوَتُنَا وَ کُنَّا قَوۡمًا ضَآلِّیۡنَ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔ وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی تھی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔

رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡہَا فَاِنۡ عُدۡنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوۡنَ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔ اے ہمارے رب!ہمیں اس جگہ سے نکال دے، اگر ہم نے پھر وہی (جرائم) کیے تو ہم لوگ ظالم ہوں گے ۔

قَالَ اخۡسَـُٔوۡا فِیۡہَا وَ لَا تُکَلِّمُوۡنِ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ اللہ فرمائے گا: خوار ہو کر اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔

تشریح کلمات

اخۡسَـُٔوۡا:

( خ س ء ) کسی کو دھتکارنے کے لیے اِخسأ کہا جاتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَمۡ تَکُنۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ: ایک ایسا سوال جس میں ان کے جرائم کا پورا خاکہ موجود ہے اور آنے والے عذاب کا پورا نقشہ۔ وہ آیات الٰہی کی تکذیب کرتے ہیں۔

۲۔ اعترافی جواب ہے: ہماری شقاوت اور بدبختی ہم پر غالب آگئی تھی۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ہم تجاوزکار ظالم تھے۔

بعض حضرات نے اسے اعتذاری جواب قرار دیا ہے کہ یہ تکذیبی عناصر (گویا اشعری مذہب کے مطابق) یہ عذر پیش کر رہے ہوں گے: اے اللہ! ہم نے تیری آیات کی تکذیب اس لیے کی کہ تو نے ازل میں یہی لکھ دیا تھا۔ تیرا فیصلہ غالب آگیا اور تکذیب ہو گئی۔ ہم نے اپنی خود مختاری سے تو نہیں کی۔ ( محاسن التاویل ۷: ۳۰۴)

صاحب محاسن التاویل کا جواب اشعری مذہب کے مطابق نہیں ہے اگرچہ اپنی جگہ درست ہے۔ جواب میں لکھتے ہیں:

انہ باطل فی نفسہ لما انہ لا یکتب علیہم من السعادۃ و الشقاوۃ الا ما اعلم اللہ تعالیٰ انہم یفعلونہ باختیارہم ۔۔۔۔

اول تو یہ نظریہ بذات خود باطل ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے ان کے حق میں وہ سعادت اور شقاوت ثبت فرمائی ہے جو یہ لوگ اپنے اختیار سے بجا لانے والے ہیں۔۔۔۔

۳۔ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡہَا: آتش جہنم سے نکلنے کی خواہش کا اظہار ایک ناممکن امر کی درخواست ہے اور یہ وعدہ غلط اور جھوٹ ہے کہ ہم دوبارہ دنیا میں جا کر آیات الٰہی کی تکذیب کریں تو ہم سے بڑا ظالم کوئی نہ ہو گا۔

۴۔ قَالَ اخۡسَـُٔوۡا فِیۡہَا: جواب ملے گا: ذلت و خواری کے ساتھ اسی آتش میں پڑے رہو۔

۵۔ وَ لَا تُکَلِّمُوۡنِ: مجھ سے بات نہ کرو۔ ان ظالموں نے اللہ سے اس وقت بات نہیں کی جب اللہ ان سے فرما رہا تھا: ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ دار امتحان میں جن لوگوں نے اللہ سے بات نہیں کی اور نہ اللہ کی بات سنی انہیں دار جزا میں بات کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔


آیات 105 - 108