آیت 101
 

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَلَاۤ اَنۡسَابَ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوۡنَ﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔ پھر جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو ان میں اس دن نہ کوئی رشتہ داری رہے گی اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ نُفِخَ: یہ دوسرے صور کا ذکر ہے جس سے تمام زندہ ہو جائیں گے۔

۲۔ فَلَاۤ اَنۡسَابَ بَیۡنَہُمۡ: نسب کی ضرورت دنیا میں پیش آتی ہے کہ کون کس کی اولاد ہے۔ اس پر خاندان و قبائل اور میراث وغیرہ کے آثار مترتب ہوتے ہیں۔

آخرت میں تمام آثار اعمال پر مترتب ہوں گے۔ لہٰذا یہاں عمل دیکھا جائے گا۔ کسی کا نسب و حسب فائدہ نہیں دے گا۔

حدیث میں آیا ہے:

کُلُّ حَسَبٍ وَ نَسَبٍ مُنْقَطِعٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّا حَسَبِی وَ نَسِبِی ۔ ( روح المعانی ۹: ۲۶۴، اخرجہ الطبرانی والبیھقی والحاکم، تفسیر طبری ۶:۴۰۳ )

ہر حسب و نسب منقطع ہو گا سوائے میرے حسب و نسب کے۔

روایت ابن عساکر عبد اللہ بن عمر سے۔ سند صحیح ہے۔

تفسیر مظہری میں یہ حدیث ان لفظوں میں مذکور ہے:

کل نسب و صھر ینقطع یوْم القیامۃ الانسبی وصھری ۔

ہر نسب اور رشتہ قیامت کے دن منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب اور رشتہ کے۔

اس حدیث کے نقل کے بعد لکھتے ہیں:

مومنین کا نسب، نبی کے نسب میں داخل ہے چونکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤمنین کے باپ اور ان کی ازواج امہات المؤمنین ہیں۔

پھر لکھا ہے:

بغوی نے کہا ہے کہ رسول کے نسب و حسب سے مراد قرآن اور ایمان ہے۔

اسی طرح یہ حضرات آل کے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ آل رسول سے مراد ہر متقی مومن ہے۔ پھر درود بھیجتے ہوئے وَاَلِہٖ کا ذکر نہیں کرتے حالانکہ بزعم خود، خود بھی آل میں شامل ہیں۔ و شہدوا علی انفسہم ۔ خود اپنے موقف کے خلاف عملی شہادت دیتے ہیں۔

۳۔ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوۡنَ: صور پھونکنے کے بعد کی حالت کا ذکر ہے کہ یہاں کوئی کسی کا حال نہیں پوچھے گا۔ ہر ایک کو اپنی فکر لاحق ہو گی:

لِکُلِّ امۡرِیًٴ مِّنۡہُمۡ یَوۡمَئِذٍ شَاۡنٌ یُّغۡنِیۡہِ (۸۰ عبس:۳۷)

ان میں سے ہر شخص کو اس روز ایسا کام درپیش ہو گا جو اسے مشغول کر دے۔


آیت 101