آیات 99 - 100
 

حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِ ﴿ۙ۹۹﴾

۹۹۔ (یہ غفلت میں پڑے ہیں) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ لے گی تو وہ کہے گا: میرے رب! مجھے واپس دنیا میں بھیج دے،

لَعَلِّیۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکۡتُ کَلَّا ؕ اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا ؕ وَ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ جس دنیا کو چھوڑ کر آیا ہوں شاید اس میں عمل صالح بجا لاؤں، ہرگز نہیں، یہ تو وہ جملہ ہے جسے وہ کہدے گا اور ان کے پیچھے اٹھائے جانے کے دن تک ایک برزخ حائل ہے۔

تفسیر آیات

اثنائے کلام میں توحید کے دروس کے بعد آمدم برسر مطلب کے طور پر مشرکین کے انجام کا کا ذکر آیا: یہ مشرکین اپنے شرک پر قائم رہیں گے۔

۱۔ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ: موت کے سامنے آنے تک۔ موت کے سامنے آنے پر راز کھل جائے گا۔ جو باتیں ضد بازی کی وجہ سے زندگی میں سمجھ میں نہیں آئی تھیں، وہ موت کے سامنے آنے پر سمجھ میں آجائیں گی جس پر وہ استدعا کریں گے: ہمیں دنیا میں واپس کر کے ایک موقع اور دے دے۔

واضح رہے موت کے سامنے آنے پر مرنے سے پہلے پورا راز کھل جاتا ہے اور مرنے والے کو اپنے انجام کا علم ہوجاتا ہے۔ پھر اس کی روح قبض ہو جاتی ہے۔

۲۔ فِیۡمَا تَرَکۡتُ: اس جملے سے ایک تو یہ معنی مراد لیا جا سکتا ہے کہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں اور دوسرا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو عمل صالح چھوڑ چکا ہوں اسے بجالاؤں لیکن فِیۡمَا کی وجہ سے پہلا معنی زیادہ قرین واقع معلوم ہوتا ہے۔

۳۔ کَلَّا ؕ اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا: وہ یہ تو کہدے گا کہ مجھے واپس کرے مگر یہ ایک ناممکن بات ہو گی۔ اس پورے سفر میں واپسی ناممکن ہے۔ پورے سفر سے مراد عالم خاک سے عالم نبات، پھر عالم صلب، عالم جنین، عالم دنیا، عالم برزخ، عالم معاد اور عالم جنت و نار۔ اس پورے سفر میں کسی بھی عالم سے سابقہ عالم کی طرف واپسی ممکن نہیں ہے۔

۴۔ عالم برزخ: وَ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ ۔ برزخ، موت کے بعد سے قیامت تک کی درمیانی مدت کو کہتے ہیں جو معلوم نہیں کس قدر طویل ہو گی۔ موت سے قیامت تک کی مدت کیا ہو گی؟ نفخۂ اولی سے نفخۂ ثانیہ کی درمیانی مدت کتنی طویل ہو گی؟ یہ مدت کئی لاکھ بلکہ کئی ارب سال ہو سکتی ہے۔ برزخی حیات کے بارے میں اقوال چند ایک ہیں: حیات برزخی سب کے لیے ہے۔ حیات برزخی صرف قبر کے سوالوں تک ہے۔ حیات برزخی صرف بڑے مومن اور بڑے مجرم لوگوں کے لیے ہے۔ باقی لوگوں کے لیے حیات برزخی صرف قبر کے سوالوں تک محدود ہے۔

بڑے پاکباز مومنین کے لیے حیات برزخی قرآنی آیات سے ثابت ہے۔ مثلاً شہداء کی حیات کے بارے میں فرمایا:

وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ (۳ آل عمران: ۱۶۹)

اور جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں قطعاً انہیں مردہ نہ سمجھوبلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔

بڑے مجرموں میں سے فرعون کے بارے میں فرمایا:

اَلنَّارُ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا ۚ وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ ۟ اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ (۴۰ مومن:۴۶)

وہ لوگ صبح و شام آتش جہنم کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور جس دن قیامت برپا ہو گی (تو حکم ہو گا) آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔

لہٰذا ان دونوں کے لیے حیات برزخی بہ نص صریح آیت موجود ہے۔

بعض دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مجرمین کے لیے حیات برزخی نہیں ہے:

وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ یُقۡسِمُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ ۬ۙ مَا لَبِثُوۡا غَیۡرَ سَاعَۃٍ ؕ کَذٰلِکَ کَانُوۡا یُؤۡفَکُوۡنَ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَ الۡاِیۡمَانَ لَقَدۡ لَبِثۡتُمۡ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ اِلٰی یَوۡمِ الۡبَعۡثِ ۫ فَہٰذَا یَوۡمُ الۡبَعۡثِ وَ لٰکِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ (۳۰ روم: ۵۵۔ ۵۶)

اور جس روز قیامت برپا ہو گی مجرمین قسم کھائیں گے کہ وہ (دنیا میں) گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے، وہ اسی طرح الٹے چلتے رہتے تھے۔ اور جنہیں علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے: نوشتہ خدا کے مطابق یقیناً تم قیامت تک رہے ہو اور یہی قیامت کا دن ہے لیکن تم جانتے نہیں تھے۔

دوسری آیت میں فرمایا:

قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا ٜۘؐ ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَ صَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ (۳۶ یٰس :۵۲)

کہیں گے: ہائے ہماری تباہی! ہماری خوابگاہوں سے ہمیں کس نے اٹھایا؟ یہ وہی بات ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا۔

اس آیت سے ظاہر ہوتا کہ قبر میں یہ حالت خواب میں تھے۔

حدیث میں ہے:

من مات فقد قامت قیامتہ ۔ (بحار الانوار ۵۸:۷)

جسے موت آئے تو اس کے لیے قیامت بھی واقع ہوتی ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ابوذرؓ کہا کرتے تھے:

ماَ بَیْنَ الْمَوْتِ وَ البَعْثِ اِلَّا کَنَوْمَۃٍ نِمْتَھَا ثُمَّ اسْتَیْقَظْتَ مِنْھَا ۔۔۔۔ (الکافی ۲:۱۳۴)

موت اور قیامت کے درمیان ایک نیند کا فاصلہ ہے جس میں تو سویا اور جاگ گیا۔

ان دونوں میں جمع اس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ موقف اختیار کیا جائے کہ حیات برزخی مقرب مؤمنین اور بڑے مجرموں کے لیے ہے۔ باقی درمیانی درجہ کے لوگوں کے لیے صرف قبر میں سوال کے لیے حیات برزخی دے دی جائے گی۔ اس پر بعض احادیث کی بھی دلالت ہے۔

ملاحظہ ہو بحار الانوار جلد ششم احوال برزخ و قبر باب ہشتم ۔

مؤمنین کے لیے حیات برزخی ہے: متعدد روایات میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ مؤمنین کے لیے حیات برزخی ہے اور ان کی حیات کے بارے میں بعض روایات میں تفصیل بھی موجود ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے راوی پوچھتے ہیں: لوگ روایت کرتے ہیں کہ مؤمن کی ارواح سبز پرندوں کے سنگدان میں عرش کے گرد ہوں گی؟ فرمایا:

لَا الْمُوْمِنُ اَکْرَمُ عَلَی اللہِ مِنْ اَنْ یَجْعَلْ رُوحَہٗ فِی حَوْصَلَۃِ طَیْرٍ وَلَکِنْ فِی اَبْدَانٍ کَاَبْدَانِھِم ۔ (الکافی ۳: ۲۴۴)

نہیں، مؤمن اللہ کے ہاں اس بات سے بہتر احترام میں ہے کہ پرندے کے سنگدان میں اس کی روح کو رکھا جائے بلکہ ان کی ارواح ایسے بدنوں میں ہوں گی جو ان کے (دنیاوی) بدنوں کی طرح ہوں گے۔

دوسری حدیث میں آیا ہے:

فاذا قبضہ اللہ عزوجل صیّر تلک الروح فی قالب کقالبہ فی الدنیا فیأ کلون و یشربون فاذا قدم علیہم القادم عرفوہ بتلک الصورۃ التی کانت فی الدنیا ۔ (بحارالانوار ۶: ۲۷۰)

جب اللہ مؤمن کی روح نکال لیتا ہے تو اسے ایسے قالب میں ڈال دیتا ہے جیسے دنیا میں تھا پھر وہ کھاتی پیتی ہیں جب کوئی ان کے ہاں کوئی وارد ہوتا ہے تو اسی شکل میں اسے پہچان لیتے ہیں جو دنیا میں تھی۔

ضریس الکناسی راوی ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مؤمنین کی ارواح ہر شام اپنی قبروں سے نکلتی ہیں اور اس باغ کی طرف جاتی ہیں جو اللہ نے مغرب کی طرف خلق فرمایا ہے۔ اس کے پھلوں سے کھاتیں، اس کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوتی اور باہمی ملاقات کرتی ہیں۔ ایک دوسرے کو پہچان لیتی ہیں اور طلوع فجر کے موقع پر اس باغ سے نکل آتی ہیں۔ آسمان و زمین کے درمیان پرواز اور رفت و آمد کرتی ہیں۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اپنی قبروں کا معائنہ کرتی ہیں۔ فضا میں باہم ملاقات کرتی ہیں اور ایک دوسرے کو پہچان لیتی ہیں۔ (الکافی ۳: ۲۴۶)

ایک اور روایت میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:

اِنَّ الْمُوْمِنَ لَیَزُورُ اَھْلَہُ فَیَرَی مَا یُحَبُّ وَ یُسْتَرُ عَنْہُ مَا یَکْرَہُ ۔۔۔۔ (الکافی۳: ۲۲۸)

مؤمن کی روح اپنے اہل خانہ کو دیکھنے آتی ہے تو جس سے محبت ہے اس کو دیکھ لیتی ہے اور جو ناپسند ہے اسے نہیں دیکھتی۔

متعدد احادیث کے مطابق ارواح کی ایک دوسرے سے ملاقات ان کے درجات کے مطابق ہے۔ بعض لوگ روزانہ، بعض لوگ ہر دو دن بعد اور بعض ہر تین دن بعد بعض ہر جمعے، بعض ہر ماہ، بعض لوگ ہر سال اپنے گھر والوں سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ (بحار الانوار ۶: ۲۵۶۔۲۵۷۔۲۵۸)

اہم نکات

۱۔ زندگی ہاتھ سے نکل جانے کے بعد دوبارہ نہیں ملے گی۔

۲۔ برزخی زندگی کی زیادہ فکر کرنی چاہیے۔


آیات 99 - 100