آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ طہ

اس سورۃ کے مضمون سے اس کا مکی ہونا ظاہر ہے۔

مضمون آیات اور بعض واقعات سے معلوم ہوتا ہے یہ سورۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اس وقت نازل ہوا جب مسلمان مکہ میں نہایت غیر مساعد حالات سے دوچار تھے۔

تفسیر برہان میں آیا ہے: ابو رافع کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک یہودی کے پاس بھیجا کہ کچھ قرض لیا جائے۔ اس یہودی نے قرض دینے سے انکار کیا۔ اس پر آیت ۱۳۱ نازل ہوئی لیکن اس روایت سے سورۃ کا مدنی ہونا ثابت نہیں۔

یہ سورہ موجودہ ترتیب کے مطابق بیسواں سورہ ہے۔ کہا جاتا ہے یہ سورہ بعثت کے پانچویں سال نازل ہوا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

لَا تَدَعُوا قِرَائَ ۃَ سُورَۃِ طہ فَاِنَّ اللہَ یُحِبُّھَا وَ یُحِبُّ مَنْ قَرَئَ ھَا ۔ (تفسیر البرھان)

سورہ طٰہ پڑھنا نہ چھوڑو چونکہ اللہ تعالیٰ اس سورہ اور اس کے پڑھنے والے کو دوست رکھتا ہے۔

یہ سورہ مبارکہ درج ذیل مضامین پر مشتمل ہے:

۱۔ توحید الٰہی۔

۲۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ۔

۳۔ سامری کا واقعہ۔

۴۔ آدم علیہ السلام و ابلیس کا واقعہ۔

۵۔ معاد کے بارے میں بعض حقائق۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

طٰہٰ ۚ﴿۱﴾

۱۔ طا، ہا۔

مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لِتَشۡقٰۤی ۙ﴿۲﴾

۲۔ ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔

تفسیر آیات

طٰہٰ: یہ ہر سورے کی ابتداء میں مذکور حروف مقطعات میں سے ہے لیکن بعض روایات کے مطابق یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسمائے مبارکہ میں سے ہے۔

تفسیر ثعلبی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

طٰہٰ کے معنی اہل البیت علیہم السلام کی طہارت کے ہیں پھر امام علیہ السلام نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔

ثعلبی نے اپنی تفسیر میں اسی قسم کی روایت ابو سعید خدری صحابی اور ابو الحمراء سے بیان کی ہے۔ یہی روایت طبرانی نے اپنی معجم میں ابو سعید خدری سے بیان کی ہے۔ ( البیاضی۔ الصراط المستقیم ۱:۱۸۶ )

مَاۤ اَنۡزَلۡنَا: اس آیت کے شان نزول میں شیعہ سنی مصادر میں بعض ایسی روایات موجود ہیں جو سیاق آیت سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔

بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز میں صرف ایک پاؤں پر کھڑے ہوتے تھے۔ بعض دیگر روایات میں آیا ہے کہ آپؐ انگلیوں پر کھڑے ہوتے تھے جس پر یہ آیت نازل ہوئی: ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔

البتہ بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ساری رات اٹھا کرتے اور پاؤں میں ورم پڑ جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے آپؐ (باری باری) ایک پاؤں پر وزن رکھتے دوسرے کو اٹھا کر رکھتے تھے جس پر یہ آیت نازل ہوئی:

یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا (۷۳ المزمل: ۱۔۲)

اے کپڑوں میں لپٹنے والے! رات کو اٹھا کیجئے مگر کم۔

دوسری بہت سی روایات سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے۔ مثلاً

کَانَ النَّبِیُّ یُصَلِّی حَتَّی تَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ ۔ ( مستدرک الوسائل ۱: ۱۲۹ باب استحباب الجد )

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس قدر نماز پڑھتے کہ آپ کے دونوں پاؤں میں ورم پڑ جاتا تھا۔


آیات 1 - 2