آیت 280
 

وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡ عُسۡرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ وَ اَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۸۰﴾

۲۸۰۔اور ( تمہارا قرضدار) اگر تنگدست ہو تو کشائش تک مہلت دو اور اگر سمجھو تو معاف کر دینا ہی تمہارے لیے بہتر ہے۔

تفسیر آیات

نزول آیت کے زمانے میں یہ طریقہ رائج تھا کہ قرضدار اگر بروقت قرض ادا کرنے کی گنجائش نہ رکھتا تو مزید مہلت دینے کے لیے سود میں اضافہ کرتے تھے۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے بعد سود لینا حرام قرار پایا اور مالک کو اصل سرمائے کا حقدار قرار دیا گیا۔ اب اگر قرضدار قرض کی ادائیگی پر قادر نہ ہو تو گنجائش ہونے تک مہلت دی جائے گی اور اس مہلت کے عوض قرض پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ دوسرے جملے سے تو اشارہ ملتا ہے کہ اسلامی مہر و محبت سے لبریز قرآنی معاشرے کا رکن بننے کی صورت میں قرضوں کو معاف کر دیا جائے۔ اس میں معاف کرنے والے سمیت سب کی بہتری ہے، بشرطیکہ لوگ اس بہتری کی حقیقت کو سمجھیں۔ اس صورت میں سودی کاروبار جو ایک فاسد عمل اور معاشرے کے لیے زہر قاتل تھا، ایک نیک عمل میں بدل جاتا ہے، جو معاشرے کے لیے خیر و برکت کا باعث ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآنی معاشرے کا تقاضا یہ ہے کہ اگرمقروض مقررہ مدت میں قرض ادا نہ کر سکے تو اسے معاف کر دیا جائے یا کم ازکم اسے مہلت ضرور دی جائے۔

تحقیق مزید:

الکافی ۴: ۳۵ باب انظار العسر ، ۵ : ۹۳ باب الدین ۔ الفقیہ ۳ : ۴۹ باب من یجب رد شہادتہ ۔ التہذیب ۶ : ۱۸۵ باب الدیون ۔ الوسائل ۱۶ : ۳۲۰ باب وجوب انظار العسر ۔


آیت 280