آیات 244 - 245
 

وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۴۴﴾

۲۴۴۔اور راہ خدا میں جنگ کرو اور جان لو کہ اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃً ؕ وَ اللّٰہُ یَقۡبِضُ وَ یَبۡصُۜطُ ۪ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۲۴۵﴾

۲۴۵۔ کوئی ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا زیادہ دے؟ اللہ ہی گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔

تفسیر آیات

اللہ تعالیٰ جہاں بھی جہاد کا حکم دیتا ہے، وہاں اس کے ساتھ فی سبیل اللّٰہ کی قید ضرور لگاتا ہے تاکہ جہاد کا حدود اربعہ متعین ہو جائے کہ کن حالات میں، کن لوگوں کے ساتھ اور کن مقاصد کے لیے جہاد کیاجاتا ہے۔ اسلامی جہاد کشور کشائی اور حکومت و غلبے کے لیے نہیں ہوتا، جیسا کہ دشمنان اسلام نے مشہور کر رکھا ہے۔

دوسری آیت رحمت و فیض الٰہی کابہترین نمونہ ہے۔ ایک بے نیاز ہستی محتاج بندوں سے قرض مانگ رہی ہے اور وہ بھی اس مال سے جو خود اس نے عطا فرمایا ہے تاکہ بندوں کو یہ آواز بھلی لگے، یہ ندا پرکشش لگے، وہ اس دعوت میں لذت محسوس کریں اور اس پر لبیک کہنے میں فخر و مباہات کریں۔ اس خطاب کی شیرینی کے بعد قرض حسنہ دینے کی راہ میں آنے والی ساری تلخیاں بھی شیریں ہو جاتی ہیں، پھر قرض حسنہ لینے والا یعنی اللہ، مالک حقیقی ہونے کے باوجود کئی گنا زیادہ دینے کا مشفقانہ وعدہ فرماتا ہے۔ سبحان الکریم الجواد ۔ کس قدر منافع بخش ہے یہ سودا۔ کئی گنا زیادہ دینے کا وعدہ اس خدا کی طرف سے ہے جو قابض ہے، یعنی گھٹانے والا اور باسط ہے، یعنی بڑھانے والا اور مرجع کل بھی ہے کہ آخر میں پلٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔

احادیث

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :

جب یہ آیت نازل ہوئی: مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیۡرٌ مِّنۡہَا ۔ {۲۷ نمل : ۸۹} ’’جو نیکی کرے گا اسے اس سے بہتر ثواب ملے گا‘‘ تو رسول خدا (ص) نے عرض کی: پالنے والے ! مزید اضافہ فرما۔ تو یہ آیت نازل ہوئی: مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشۡرُ اَمۡثَالِہَا ۔۔۔۔{۶ انعام : ۱۶۰} یعنی ’’جو ایک نیکی بجا لائے اس کو دس گنا زیادہ ثواب ملے گا‘‘۔ پھر رسول خدا (ص) نے عرض کیا: پالنے والے مزید اضافہ فرما، تب یہ آیت نازل ہوئی: مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃً ۔۔۔۔ فرمایا: اللہ کا کثیر ناقابل شمار ہے۔ {تفسیر عیاشی ۱ : ۱۳۱}

اہم نکات

۱۔ غیر مسلموں سے لڑی جانے والی جنگ اس وقت جہاد کہلائے گی، جب اس کا مقصد صرف اعلائے کلمہ حق ہو، کشور کشائی یا مال غنیمت کا حصول نہ ہو: یۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۔۔۔۔

۲۔ سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار اللہ کی راہ میں خرچ کرناہے، جسے اللہ نے قرض حسنہ کا نام دیا ہے۔

۳۔ مال و رزق میں کمی بیشی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا حصول رزق کے لیے قوانین خدا کی مخالفت، سعی لاحاصل ہے: وَ اللّٰہُ یَقۡبِضُ وَ یَبۡصُۜطُ ۔۔۔۔

۴۔ انسان ہر کام میں اللہ کے حضور جوابدہ ہے۔ لہٰذا دشمنوں کے ساتھ روابط اورمالی معاملات میں انتہائی احتیاط ضروری ہے۔

تحقیق مزید: آیت ۲۴۵: الکافی ۱ : ۵۳۷۔ مستدرک الوسائل ۷ : ۲۶۲۔ تفسیر عیاشی ۱ : ۱۳۱


آیات 244 - 245