آیت 148
 

وَ لِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ ؕ؃ اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یَاۡتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۴۸﴾

۱۴۸۔ اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے، پس تم لوگ نیکیوں کی طرف سبقت کرو،تم جہاں کہیں بھی ہوں گے اللہ (ایک دن) تم سب کو حاضر کرے گا، یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تشریح کلمات

وِّجۡہَۃٌ:

(و ج ہ) وہ سمت جس کی طرف رخ کیا جاتا ہے۔

تفسیر آیات

قبلے کے بارے میں ہونے والی بحث و گفتگو اور اختلافات کے سلسلے میں بیان قاطع کے ساتھ ارشاد ہے کہ یہودیوں کا اپنااور نصاریٰ کا اپنا قبلہ ہے۔ ہر فرقے کا اپنا اپنا قبلہ ہے۔ آپ (ص) اس موضوع میں زیادہ مت الجھیں۔ زندگی کا اصل مقصد نیکیوں میں سبقت حاصل کرنا ہے۔ بروز قیامت جب اللہ تعالیٰ سب کو ایک جگہ جمع فرمائے گا تو وہاں نیکیاں دیکھی جائیں گی، قبلہ نہیں دیکھا جائے گا۔ قبلہ تو ایک قرار دادی چیز (حکم) ہے، جس میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ کل بیت المقدس قبلہ تھا، آج کعبہ قبلہ ہے۔ اگر کسی کا قبلہ درست ہو، لیکن نیکیاں نہ ہوں تو اس صورت میں قبلے کی حقانیت اسے کوئی فائدہ نہیں دے گی۔

شیعہ امامیہ کی متعدد روایات میں وارد ہوا ہے کہ اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یَاۡتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا سے مراد حضرت امام مہدی علیہ السلام کے انصار ہیں۔

علامہ طباطبائی فرماتے ہیں : اِنَّہٗ مِنَ التَّطْبِیْقِ وَ الْجَرْیِ ۔ {المیزان ج۱ ذیل آیت} یہ آیت امام مہدی علیہ السلام کے انصار پر بھی قابل تطبیق ہے۔ مراد اور تطبیق میں نمایاں فرق ہوتا ہے اور ہم نے مقدمے میں تطبیق کی وضاحت بیان کی ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کو اختلافی مسائل سے زیادہ نیکیوں کی بجا آوری پر اپنا وقت صرف کرنا چاہیے: وَ لِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ ۔۔۔۔

تحقیق مزید: غیبۃ الطوسی ص ۴۷۷، فقہ القرآن ۱ : ۹۳۔


آیت 148