آیت 41
 

وَ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ وَ لَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ ۪ وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۫ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوۡنِ﴿۴۱﴾

۴۱۔اور میری نازل کردہ (اس کتاب) پر ایمان لاؤ جو تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر مت بنو اور میری آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو اور صرف میرے (غضب) سے بچنے کی فکر کرو۔

تشریح کلمات

ثمن:

معاملے کا عوض، قیمت، قدر۔

تفسیر آیات

’’میری آیات کو حقیر اور نا پائیدار چیزوں کے عوض نہ بیچو‘‘۔ یہ ایک عمومی دعوت فکر ہے کہ آیات الٰہی کے مقابلے میں دنیا کے تمام بڑے بڑے مفادات بھی حقیر ہیں۔

اگرچہ اس آیت میں یہودیوں سے خطاب کیا گیا ہے کہ ’’ اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر توریت کی آیات اور اس کے احکام میں تحریف نہ کرو۔‘‘لیکن درحقیقت یہ تمام لوگوں کے لیے ایک عمومی حکم ہے۔ کیونکہ مجموعی طور پر قرآنی آیات و احکام اپنے مخاطبین سے ہی مخصوص نہیں،بلکہ ان میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ شان نزول کے خاص ہونے سے کلام کی عمومیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بنابراین اشتراء سے مراد ہر قسم کا معاوضہ و معاملہ ہے اور ثمن قلیل سے مراد دنیاوی مفادات ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جس شخص نے اپنی خواہشات کو اللہ کی خوشنودی پر مقدم رکھا، گویا اس نے اللہ کی آیات کو حقیر قیمت پر بیچ ڈالا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

مَنْ اَصْغَیٰ اِلٰی نَاطِقٍ فَقَدْ عَبَدَہٗ فَاِنْ کَانَ النَّاطِقُ عَنِ اللّٰہِ فَقَدْ عَبَدَ اللّٰہَ وَ اِنْ کَانَ النَّاطِقُ عَنْ اِبْلِیْسَ فَقَدْ عَبَدَ اِبْلِیْسَ ۔ {وسائل الشیعۃ ۱۷ : ۱۵۳}

جس شخص نے کسی کی آواز پر کان دھرا گویا اس نے اس کی عبادت کی۔ پس اگر بولنے والا اللہ کی طرف سے (بول رہا ) ہو تو عبادت بھی اللہ کی ہو گی اور اگر یہ آواز شیطان کی طرف سے ہو تو عبادت بھی شیطان کی ہو گی۔

اہم نکات

۱۔ دنیاوی مفادات کی خاطر دینی مفاہیم میں تبدیلی ہلاکت خیز سودا ہے۔

۲۔ حقائق کو مسخ کرنے والوں کی بات ماننا شیطان کی بندگی ہے۔


آیت 41