آیت 87
 

لَا یَمۡلِکُوۡنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَہۡدًا ﴿ۘ۸۷﴾

۸۷۔ کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہو گا سوائے اس کے جس نے رحمن سے عہد لیا ہو۔

تفسیر آیات

مشرکین اپنے معبودوں کی پوجا اس لیے کرتے تھے کہ یہ اللہ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے۔ اس آیت میں اس تصور کا رد ہے کہ شفاعت کا اختیار صرف اسے مل سکتا ہے جس نے اللہ سے عہد لے رکھا ہے۔

پہلی تفسیر یہ ہے کہ دوسروں کو شفاعت کرنے کا اختیار نہیں مل سکتا مگر اس ہستی کو جس نے اللہ سے شفاعت کے اختیار کا عہد لے رکھا ہے۔

دوسری تفسیر یہ ہو سکتی ہے کہ لَا یَمۡلِکُوۡنَ الشَّفَاعَۃَ شفاعت مل نہیں سکتی مگر ان لوگوں کو جنہوں نے اللہ سے عہد لے رکھا ہے۔

ان دونوں تفسیروں میں سے پہلی تفسیر کی روشنی میں مشرکین کے نظریے کی رد ہے چونکہ مشرکین یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان کے ارباب کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دوسروں کی شفاعت کریں۔

یہ عہد کیا ہے؟ اس سلسلے میں مختلف اقوال کی طرف جانے سے بہتر ہے خود قرآن کی طرف رجوع کیا جائے۔ قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی منصب پر فائز ہونے کے لیے ایک عہد کی ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی بھی کسی الٰہی منصب پر فائز نہیں ہوتا۔ لَا يَنَالُ عَہْدِي الظّٰلِــمِيْنَ (۲ بقرہ: ۱۲۴) دوسروں کی شفاعت کا اختیار حاصل ہونا ایک الٰہی منصب ہے اس لیے اللہ سے ایک خاص عہد کے مقام پر فائز ہونا چاہیے۔

بعض احادیث میں عہد سے مراد ولایت علی علیہ السلام یا نماز یا ایمان باللہ کا ذکر ہے۔ یہ بات دوسری تفسیر کے مطابق درست ہے۔ یعنی شفاعت ملنے کے لیے جس عہد کی ضرورت ہے، اس کا ذکر ہے۔


آیت 87