آیت 82
 

وَ اَمَّا الۡجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیۡنِ یَتِیۡمَیۡنِ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ وَ کَانَ تَحۡتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنۡ یَّبۡلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَ یَسۡتَخۡرِجَا کَنۡزَہُمَا ٭ۖ رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ۚ وَ مَا فَعَلۡتُہٗ عَنۡ اَمۡرِیۡ ؕ ذٰلِکَ تَاۡوِیۡلُ مَا لَمۡ تَسۡطِعۡ عَّلَیۡہِ صَبۡرًا ﴿ؕ٪۸۲﴾

۸۲۔ اور (رہی) دیوار تو وہ اسی شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ موجود تھا اور ان کا باپ نیک شخص تھا، لہٰذا آپ کے رب نے چاہا کہ یہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکالیں اور یہ میں نے اپنی جانب سے نہیں کیا، یہ ہے ان باتوں کی تاویل جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔

تفسیر آیات

اس دیوار کا بنانا اگرچہ بظاہر بے سود اور بے فائدہ کام ہے لیکن درحقیقت ایک نیک اور صالح انسان کے سرمائے کا تحفظ ہے۔ ان بچوں نے بڑے ہو کر صالح اور نیک انسان بننا تھا۔ چنانچہ ان کے والد بھی نیک اور صالح تھے اس لیے ان کا مال بہترین ذریعہ ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

نعم المال الصالح للعبد الصالح ۔ (بحار الانوار ۷۰: ۶۲)

صالح عبد کے لیے صالح مال بہترین چیز ہے۔

ذٰلِکَ تَاۡوِیۡلُ مَا لَمۡ تَسۡطِعۡ عَّلَیۡہِ صَبۡرًا: تاویل کے بارے میں مقدمہ میں بحث ہو گئی ہے کہ ہر واقعہ اور فعل کی تاویل وہ مرکزی نکتہ ہے جس پر اس فعل کی مصلحت اور اس کی افادیت کا انحصار ہے۔ وہی اس کا محرک اور جواز بنتا ہے۔

ایک سوال: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معلّم نے کسی کے مال پر تصرف کیسے کر لیا کہ مالک کی اجازت کے بغیر اس کی کشتی کو نقصان پہنچایا۔ کسی شریعت میں بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ کسی کی ملکیت کو خراب کیا جائے۔

اسی طرح ایک بے گناہ لڑکے کا قتل کسی شریعت میں جائز نہیں ہے۔ خواہ یہ معلوم ہو کہ بڑا ہو کر اس نے کفر کا ارتکاب کرنا ہے چونکہ جرم سرزد ہونے سے پہلے سزا نہیں دی جاتی۔

اس کے جواب میں یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معلّم نے یہ کام اللہ کے حکم سے کیا تھا چونکہ اس میں تو شک نہیں ہے کہ یہ سب اللہ کے حکم سے ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اللہ نے ایک مکلف کو یہ حکم کیسے دیا جب کہ اپنی کسی شریعت میں اس حکم کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے؟

اس کے جواب کی ایک یہ کوشش کی گئی ہے کہ کوئی شرعی جواز نکالا جائے۔ مثلاً کشتی کے بارے میں کہتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معلّم نے اذن فحوی کی بنا پر کشتی کو نقصان پہنچایا۔ اذن فحوی کا مطلب یہ ہے کہ جب مالک کو معلوم ہو گا کہ اس نقصان کی وجہ سے اس کی کشتی ظالم بادشاہ کے ہاتھ سے بچ گئی تو وہ یقینا اس نقصان پر راضی ہو جائے گا۔

کہتے ہیں یہ بچہ نابالغ اور کافر تھا اور مستقبل میں بڑے جرائم کا ارتکاب کرنے والا تھا۔ اس لیے جائز القتل تھا۔

رہی دیوار کی اصلاح۔ سو یہ ایک ایثار ہے اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔

اس جواب میں فقہی اعتبار سے سقم موجود ہے اور تاریخی اعتبار سے بچے کا بلوغ ثابت نہیں ہے۔

اس مسئلے میں زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ کسی مکلف انسان کا عمل نہیں ہے کہ گزشتہ اعتراضات وارد ہو جائیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے نظام تکوینی میں رونما ہونے والے واقعات کو تمثیلی طور پر پیش کیا گیا ہے اور ان واقعات کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معلّم کے عمل کی صورت میں دکھایا گیا ہے، درحقیقت یہ اللہ کی طرف سے تھے۔ چنانچہ دیوار کے بارے میں فرمایا: فَاَرَادَ رَبُّکَ تیرے رب نے ارادہ کیا اور آخر میں فرمایا: وَ مَا فَعَلۡتُہٗ عَنۡ اَمۡرِیۡ ۔ یہ کام میں نے اپنی جانب سے نہیں کیا۔

چنانچہ روزمرہ مشاہدہ ہے کہ ایک شخص کا اکلوتا بچہ مر جاتا ہے۔ دوسرے غریب مسکین کی جمع پونجی ضائع ہو جاتی ہے۔ تیسرے شخص کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک ظالم کے پاس طاقت ہے اور ایک مظلوم کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کی توجیہ اور مصلحت عام لوگوں کے فہم سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام تکوینی میں رونما ہونے والے اس قسم کے حالات اور حادثات کے پیچھے جو اسرار و رموز پوشیدہ ہیں ان سے اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو آگاہ فرماتا ہے۔

سیر ملکوتی: اللہ تعالیٰ کے نظام تکوینی میں رونما ہونے والے اس قسم کے حالات و حادثات کے پیچھے جو اسرار و رموز پوشیدہ ہیں اللہ تعالیٰ اپنے اولوالعزم رسولوں کو ان سے آگاہ فرماتا ہے۔

چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی ملکوتی نشانیوں سے آگاہ فرماتے ہوئے فرمایا:

وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ (۶ انعام: ۷۵)

اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا (نظام) حکومت دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں۔

آسمانوں اور زمین میں اللہ کی سلطنت کا مشاہدہ کرایا تاکہ ان کا ایمان بالشہود کے درجے پر فائز ہو جائے اور یقین کی اس منزل پر فائز ہو جائیں کہ آتش نمرود میں جاتے ہوئے جبرئیل امین جیسے مقتدر فرشتے کی مدد کو بھی ناقابل اعتنا سمجھیں۔

اسی طرح حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی افق اعلیٰ کی سیر کرائی۔ چنانچہ فرمایا:

لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی (۵۳ نجم: ۱۸)

بتحقیق انہوں نے اپنے رب کی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔

چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایمان بالغیب اور ایمان بالشہود ، دونوں سے بالاتر مقام کی طرف اشارہ فرمایا:

مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی (۵۳ نجم: ۱۱)

جو کچھ (نظروں نے) دیکھا اسے دل نے نہیں جھٹلایا۔

قلب و بصر دونوں سے بالاتر، مقام یقین پر فائز ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۲۶۰۔ سورہ الانعام آیت ۷۵۔

اسی طرح نظام کائنات کے پوشیدہ رازوں کا حضرت موسی علیہ السلام کو مطالعہ کرانا مقصود ہے۔ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جس مرتبہ کا ملکوتی کا مطالعہ کرایا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس سے کمتر درجے کا مطالعہ کرایا ہے۔

چنانچہ اس درس میں حضرت موسی علیہ السلام نے یہ سیکھا کہ اس کائنات میں رونما ہونے والے ان واقعات جن کی ہم کوئی مثبت توجیہ نہیں کر سکتے، کے پیچھے ایک حکمت پوشیدہ ہے جو اس کائنات کے نظام اصلح کے لیے ضروری ہے۔

اہم نکات

۱۔ نظام کائنات میں اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو صبر سے کام لینا چاہیے اور تحقیق کا سفر جاری رکھنا چاہیے۔

۲۔ استاد شاگرد میں فکری ہم آہنگی نہ ہو تو زیادہ دیر ساتھ نہیں رہنا چاہیے۔

۳۔ شاگردی کے لیے اتباع سب سے پہلی شرط ہے۔

۴۔ بے علم، بے صبر ہوتا ہے۔

۵۔ حصول علم کے لیے طویل سفر کرنا پڑے تو کرنا چاہیے۔

۶۔ والدین کی نیکی کی ایک جزا یہ ہے کہ ان کی اولاد نیک ہوتی ہے اور ان کو تحفظ مل جاتا ہے۔

۷۔ اولاد کا مرنا کبھی والدین پر اللہ کا احسان ہوتا ہے۔


آیت 82