آیت 9
 

اَمۡ حَسِبۡتَ اَنَّ اَصۡحٰبَ الۡکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنۡ اٰیٰتِنَا عَجَبًا﴿۹﴾

۹۔ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ غار اور کتبے والے ہماری قابل تعجب نشانیوں میں سے تھے؟

تشریح کلمات

الۡکَہۡفِ:

( ک ھ ف ) بڑے غار کو کہتے ہیں جو پہاڑ میں ہوتے ہیں۔ اس کی جمع کہوف آتی ہے۔ اگر یہ چھوٹا ہو تو اسے غار کہتے ہیں۔

الرَّقِیۡمِ

( ر ق م ) بمعنی مرقوم۔ مکتوب، الرقم کے معنی گاڑھے خط کے ہیں۔ بعض کے نزدیک رقیم ایک مقام کا نام ہے۔ بعض دیگر کے نزدیک اس لوح کا نام ہے جس پر اصحاب کہف کے نام و نسب اور مختصر واقعہ درج تھا۔

تفسیر آیات

استفہام انکاری ہے: کیا اصحاب کہف کا صدیوں تک سلانا اور بیدار کرنا اللہ کی نشانیوں میں قابل تعجب نشانی ہے؟ اصحاب کہف اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ضرور ہیں مگر آفاق و انفس میں موجود اللہ تعالیٰ کی بڑی اور نہایت حیرت انگیز عظیم نشانیوں میں اس نشانی کو اتنی اہمیت حاصل نہیں ہے کہ تعجب و حیرت ہو اور قدرت خدا سے بعید ہو۔ اس قادر مطلق کے لیے چند افراد کو چند صدیوں تک سلا دینا اور پھر تندرست، صحت مند حالت میں انہیں بیدار کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ اپنے خاص بندوں کو ایک مقصد کے تحت لمبی زندگی دینا اللہ کے لیے مشکل نہیں ہے۔

۲۔ اللہ کی کائنات میں اصحاب کہف کے واقعات سے زیادہ تعجب خیز واقعات موجود ہیں۔


آیت 9