آیت 104
 

وَّ قُلۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ لِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اسۡکُنُوا الۡاَرۡضَ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ جِئۡنَا بِکُمۡ لَفِیۡفًا﴿۱۰۴﴾ؕ

۱۰۴۔ اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا: تم اس سرزمین میں سکونت اختیار کرو پھر جب آخرت کا وعدہ آ جائے گا تو ہم تم سب کو ایک ساتھ لے آئیں گے۔

تشریح کلمات

لَفِیۡفًا:

( ل ف ف ) لففت الشیٔ کا ایک معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملا نا اور مدغم کرنا ہے۔

تفسیر آیات

معجزات کے انکار کے نتیجے میں اول تومنکر ہلاک ہو گیا۔ دوم یہ کہ جنہیں وہ زمین سے نابود کرنا چاہتے تھے وہ سرزمین کے مالک ہو گئے۔ اس آیت میں سرزمین سے مراد فلسطین کی سرزمین ہو سکتی ہے۔ فرعون نے اپنی ساری طاقت اس بات پر لگائی تھی کہ اسرائیلی فلسطین میں آباد نہ ہوں لیکن اللہ نے فرعون کو ہلاک کر کے ان کو ارض فلسطین میں آباد کیا۔

وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ: سے مراد روز قیامت ہو سکتا ہے چونکہ فرعون اور بنی اسرائیل ایک جگہ قیامت کے روز ہی جمع ہو سکتے ہیں۔

اس آیت میں مشرکین مکہ کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ تم چاہتے تو یہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سرزمین سے ناپید کر دیں لیکن اس ناپاک کوشش کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم ہلاک ہو جاؤ گے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سرزمین کے وارث بن جائیں گے۔ صدق اللّٰہ العلی العظیم ۔

اہم نکات

۱۔ منکرین معجزہ کو دو دن دیکھنے پڑیں گے:

الف: معجزہ لانے والے کو زمین کا وارث بنتے ہوئے۔

ب: خود کو قیامت کے دن خواری اٹھاتے ہوئے۔


آیت 104