آیات 72 - 77
 

لَعَمۡرُکَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ سَکۡرَتِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ﴿۷۲﴾

۷۲۔ (اے رسول) آپ کی زندگی کی قسم! یقینا وہ بدمستی میں مدہوش تھے۔

فَاَخَذَتۡہُمُ الصَّیۡحَۃُ مُشۡرِقِیۡنَ ﴿ۙ۷۳﴾

۷۳۔ پھر سورج نکلتے وقت انہیں خوفناک آواز نے گرفت میں لے لیا۔

فَجَعَلۡنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ﴿ؕ۷۴﴾

۷۴۔ پھر ہم نے اس بستی کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا اور ہم نے ان پر کنکریلے پتھر برسائے۔

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلۡمُتَوَسِّمِیۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ اس واقعہ میں صاحبان فراست کے لیے نشانیاں ہیں۔

وَ اِنَّہَا لَبِسَبِیۡلٍ مُّقِیۡمٍ﴿۷۶﴾

۷۶۔ اور یہ بستی زیر استعمال گزرگاہ میں (آج بھی) موجود ہے۔

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿ؕ۷۷﴾

۷۷۔ اس میں ایمان والوں کے لیے یقینا نشانی ہے ۔

تشریح کلمات

متوسمین:

( و س م ) التوسم کے معنی آثار و قرائن سے کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرناکے ہیں اور اسے علم ذکاوت، فراست اور فطانت بھی کہا جاتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

اتَّقُوا فِرَاسَۃَ الْمُؤمِنِ فَاِنَّہُ یَنْظُرُ بِنُورِ اﷲِ ۔۔۔۔ (الکافی ۱:۲۱۸)

مومن کی فراست سے ڈرتے رہو۔ وہ اللہ کے عطا کردہ نور سے دیکھتا ہے۔

سبیل مقیم:

غیر متروک راستے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

سورہ اعراف آیت ۸۱ اور سورہ ہود آیت ۷۷ میں ملاحظہ ہو قوم لوط کے انجام میں ایسی نشانیاں ہیں جنہیں فہم و فراست رکھنے والے سمجھ سکتے ہیں : وَ اِنَّہَا لَبِسَبِیۡلٍ مُّقِیۡمٍ ۔۔۔۔ اور یہ بستی زیر استعمال گزرگاہ میں (آج بھی) موجود ہے۔ مکہ سے شام جاتے ہوئے راستے میں یہ تباہ شدہ علاقہ آج بھی قابل دید ہے اور بعض جغرافیہ دانوں کے مطابق یہاں اس درجہ ویرانی پائی جاتی ہے جس کی نظیر روئے زمین پر کہیں اور نہیں دیکھی گئی۔( تفہیم القرآن)

اہم نکات

۱۔ ایمان کا فہم و فراست سے تعلق ہے: لَاٰیٰتٍ لِّلۡمُتَوَسِّمِیۡنَ ۔


آیات 72 - 77