آیت 41
 

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا ؕ وَ اللّٰہُ یَحۡکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکۡمِہٖ ؕ وَ ہُوَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ﴿۴۱﴾

۴۱۔ کیا ان لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کا رخ کرتے ہیں تو اس کو اطراف سے کم کرتے چلے آتے ہیں؟ اللہ حکم صادر فرماتا ہے اس کے حکم کو پس پشت ڈالنے والا کوئی نہیں اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔

تفسیر آیات

کفار بار بار تمسخر کے انداز میں حضورؐ سے کہتے تھے کہ جس عذاب کی دھمکیاں مدت سے دے رہے ہو، آخر وہ کب آئے گا۔ سابقہ اور یہ دونوں آیات، ایسے سوالات کا جواب ہیں کہ اس عذاب کے آثار تم دیکھتے نہیں ہو کہ جب ہم زمین کا رخ کرتے ہیں تو اہل زمین کے اشراف اور مقتدر لوگوں کو نابود کرتے ہیں:

بَلۡ مَتَّعۡنَا ہٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَہُمۡ حَتّٰی طَالَ عَلَیۡہِمُ الۡعُمُرُ ؕ اَفَلَا یَرَوۡنَ اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا ؕ اَفَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ﴿﴾ (۲۱ انبیاء: ۴۴)

بلکہ ہم تو انہیں اور ان کے آبا کو سامان زیست دیتے رہے یہاں تک کہ ان پر عرصہ دراز گزر گیا تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم عرصہ زمین ہر طرف سے تنگ کر رہے ہیں ؟ تو کیا (پھر بھی) یہ لوگ غالب آنے والے ہیں۔

یہ دونوں آیات مکی ہونے کی وجہ سے وہ تفسیر درست نہیں ہے کہ نقص الارض سے مراد فتوحات لیاجائے بلکہ نقص الارض سے مراد اہل ارض ہی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دوسری آیت کا سیاق یہی ہے کہ لمبی عمر اور عرصہ دراز گزرنے کے بعد ان کو نابود کر دیا گیا۔ منقول ہے کہ عالم کی موت زمین کی خسارت ہے۔ اسی طرح کافروں کے مقتدر لوگوں کی موت سے ان کے لیے زمین کا عرصۂ زمین تنگ ہو جاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کے تکوینی حکم کی نافرمانی نہیں ہو سکتی: لَمُعَقِّبَ لِحُکۡمِہٖ ۔۔۔۔

۲۔ اہل ارض خواہ کتنے ہی سرکش کیوں نہ ہوں وہ حکم خدا سے نابود ہو جاتے ہیں۔


آیت 41