آیت 31
 

وَ لَوۡ اَنَّ قُرۡاٰنًا سُیِّرَتۡ بِہِ الۡجِبَالُ اَوۡ قُطِّعَتۡ بِہِ الۡاَرۡضُ اَوۡ کُلِّمَ بِہِ الۡمَوۡتٰی ؕ بَلۡ لِّلّٰہِ الۡاَمۡرُ جَمِیۡعًا ؕ اَفَلَمۡ یَایۡـَٔسِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ لَّوۡ یَشَآءُ اللّٰہُ لَہَدَی النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ لَا یَزَالُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا تُصِیۡبُہُمۡ بِمَا صَنَعُوۡا قَارِعَۃٌ اَوۡ تَحُلُّ قَرِیۡبًا مِّنۡ دَارِہِمۡ حَتّٰی یَاۡتِیَ وَعۡدُ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ﴿٪۳۱﴾

۳۱۔ اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا جس سے پہاڑ چل پڑتے یا زمین پھٹ جاتی یا مردے کلام کرتے (تو بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے) بلکہ یہ سارے امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں، کیا اہل ایمان پر یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ہدایت دے دیتا اور ان کافروں پر ان کے اپنے کردار کی وجہ سے آفت آتی رہے گی یا ان کے گھروں کے قریب (مصیبت) آتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آ پہنچے، یقینا اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

تشریح کلمات

قَارِعَۃٌ:

( ق ر ع ) القرع ایک چیز کو دوسری چیز پر مارنے کے معنوں میں ہے۔ کھڑکھڑاہٹ کے قریب المعنی ہے۔

یأس:

الیأس علم کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

تفسیر آیات

سلسلہ کلام محسوس معجزوں کے مطالبے کے بارے میں ہے کہ یہ لوگ معجزوں کی بنا پر ایمان لانے والے نہیں ہیں:

اِنَّ الَّذِیۡنَ حَقَّتۡ عَلَیۡہِمۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿﴾ وَ لَوۡ جَآءَتۡہُمۡ کُلُّ اٰیَۃٍ ۔۔۔۔ (۱۰ یونس: ۹۶۔ ۹۷)

جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کا فیصلہ قرار پا چکا ہے وہ یقینا ایمان نہیں لائیں گے۔ اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آ جائے۔۔۔۔

۱۔ وَ لَوۡ اَنَّ قُرۡاٰنًا سُیِّرَتۡ: روئے سخن اہل ایمان کی طرف ہے جو یہ خواہش رکھتے تھے کہ کفار کے بار بار مطالبے پر مذکورہ معجزات کا ظہور ہو جاتا تو یہ لوگ ایمان لے آتے اور ان لوگوں کو شبہات پھیلانے کا بہانہ نہ ملتا۔ جواباً اہل ایمان سے فرما رہا ہے: بَلۡ لِّلّٰہِ الۡاَمۡرُ جَمِیۡعًا ۔۔۔۔

ایسا نہیں ہے کہ ان کی ہدایت، معجزات کے ساتھ مربوط ہو اور وہ ایمان لانے کے لیے آمادہ ہوں، صرف معجزات کے ظہور کا انتظار ہو بلکہ تمام معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ ہدایت کے اہل لوگوں کو ایمان سے نوازتا اور نااہل لوگوں کو گمراہی میں دھکیل دیتا ہے۔ اگر ایمان و ہدایت کے لیے معجزہ ہی کار آمد ہوتا تو سابقہ انبیاء کے معجزوں کو جادو کہہ کر مسترد نہ کیا جاتا اور خود خاتم الابنیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیش کردہ قرآن کا معجزہ ایمان کے لیے کافی تھا۔ معجزہ، اتمام حجت کے لیے ہوتا ہے، ایمان لانے پر مجبور کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔ سو یہ حجت قرآن و دیگر معجزات کے ذریعہ پوری ہو گئی ہے۔ آیت کے دوسرے جملہ میں فرمایا:

۲۔ اَفَلَمۡ یَایۡـَٔسِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا: اہل ایمان پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اگر اللہ چاہتا تو سب کو قہراً ایمان لانے پر مجبور کر دیتا مگر اس ایمان کی کیا قیمت ہے؟ اللہ ہدایت کو طاقت کے ذریعے مسلط نہیں فرماتا۔ اللہ لوگوں کو ہدایت و ضلالت کے درمیان کھڑا کرتا ہے۔ جو چاہے ہدایت اختیار کرے اور جو چاہے ضلالت کی راہ لے۔

۳۔ وَ لَا یَزَالُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: تیسرے جملہ میں فرمایا: ان پر عذاب نازل ہونے والا ہے یا ان کے گھروں کے نزدیک عذاب آنے والا ہے اور ساتھ یہ نوید بھی سنائی گئی کہ وعدہ الٰہی ہونے والا ہے۔

واضح رہے مکہ میں نازل ہونے والے اس سورہ میں ایک طرف تو مسلمانوں کو یہ خبر دی جا رہی ہے کہ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں جیسا کہ سورہ یٰسٓ میں فرمایا:

وَ سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿﴾ (۳۶ یٰسٓ: ۱۰)

اور ان کے لیے یکساں ہے کہ آپ انہیں تنبیہ کریں یا نہ کریں وہ (ہر حالت میں ) ایمان نہیں لائیں گے۔

۴۔ نَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ: دوسری طرف یہ خوشخبری سنائی جا رہی ہے:

الف: ان پر عذاب نازل ہونے والا ہے۔

ب: اور اللہ کا وعدۂ فتح بھی پورا ہونے والا ہے۔

اہم نکات

۱۔ دین کے انتخاب میں جبر نہیں ہے: لَّوۡ یَشَآءُ اللّٰہُ لَہَدَی النَّاسَ ۔۔۔۔

۲۔ کفار کو دنیا میں بھی سزا ملے گی: بِمَا صَنَعُوۡا قَارِعَۃٌ ۔۔۔۔

۳۔ مسلمانوں کو فتح کی نوید: حَتّٰی یَاۡتِیَ وَعۡدُ اللّٰہِ ۔۔۔۔


آیت 31