آیت 30
 

کَذٰلِکَ اَرۡسَلۡنٰکَ فِیۡۤ اُمَّۃٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہَاۤ اُمَمٌ لِّتَتۡلُوَا۠ عَلَیۡہِمُ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ ہُمۡ یَکۡفُرُوۡنَ بِالرَّحۡمٰنِ ؕ قُلۡ ہُوَ رَبِّیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ اِلَیۡہِ مَتَابِ ﴿۳۰﴾

۳۰۔ (اے رسول ) اسی طرح ہم نے آپ کو ایسی قوم میں بھیجا ہے جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں تاکہ آپ ان پر اس (کتاب) کی تلاوت کریں جس کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے جبکہ یہ لوگ خدائے رحمن کو نہیں مانتے،کہدیجئے: وہی میرا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اسی پر میں نے بھروسا کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَرۡسَلۡنٰکَ فِیۡۤ اُمَّۃٍ قَدۡ خَلَتۡ: اے رسول آپ کا مبعوث کرنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے آپ سے پہلے بھی ایسی قومیں گزری ہیں جن کی طرف ہم نے رسول بھیجے۔

۲۔ تَتۡلُوَا۠ عَلَیۡہِمُ الَّذِیۡۤ: آپ کی ذمے داری یہ ہے کہ جو آپ کی طرف وحی ہوئی ہے اس کی تبلیغ کریں اگرچہ وہ خدائے رحمن کو نہیں مانتے۔ ان کو منوانا آپ کی ذمے داری نہیں ہے۔

۳۔ یَکۡفُرُوۡنَ بِالرَّحۡمٰنِ: ممکن ہے یہاں لفظ رحمٰن کا ذکر کر کے اس مطلب کی طرف اشارہ مقصود ہو کہ وہ اس رحمت کے منکر ہیں جس میں دین و دنیا دونوں کی سعادت مضمر ہے۔

۴۔ قُلۡ ہُوَ رَبِّیۡ: آپ ان پر یہ بات واضح کر دیں: میرا رب صرف اللہ ہے۔ اس لیے میں صرف اللہ کی عبادت کرتا ہوں چونکہ عبادت صرف رب کی ہوتی ہے۔ صرف عبادت نہیں بلکہ ہر معاملے میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں چونکہ اس کے علاوہ کسی کے پاس کچھ ہوتا نہیں کہ میں اس کی طرف رجوع کروں۔

اہم نکات

۱۔ رسولوں کامبعوث کرنا اللہ کی سنت ہے: کَذٰلِکَ اَرۡسَلۡنٰکَ ۔۔۔۔

۲۔ کافر، رحمت خدا کے منکر ہوتے ہیں: یَکۡفُرُوۡنَ بِالرَّحۡمٰنِ ۔۔۔۔

۳۔ توکل، رسالت کے ستونوں میں سے ہے: عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ ۔۔۔۔


آیت 30