آیت 50
 

وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖ ۚ فَلَمَّا جَآءَہُ الرَّسُوۡلُ قَالَ ارۡجِعۡ اِلٰی رَبِّکَ فَسۡـَٔلۡہُ مَا بَالُ النِّسۡوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ بِکَیۡدِہِنَّ عَلِیۡمٌ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور بادشاہ نے کہا : یوسف کو میرے پاس لاؤ پھر جب قاصد یوسف کے پاس آیا تو انہوں نے کہا :اپنے رب کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا مسئلہ کیا تھا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ دیے تھے؟ میرا رب تو ان کی مکاریوں سے یقینا خوب باخبر ہے۔

تشریح کلمات

البال:

( ب و ل ) اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جس کی فکر یا پرواہ کی جائے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖ: تعبیر خواب سن کر بادشاہ نے اندازہ لگایا ہو گا کہ یوسف علیہ السلام ایک غیر معمولی شخصیت ہیں جو نہ صرف خوابوں کی تعبیر سے بخوبی واقف ہیں بلکہ اپنی جوانی زندان میں گزارنے اور جواں سال، ناتجربہ کار ہونے کے باوجود تدبیر مملکت، بالخصوص اقتصادی پالیسی وضع کرنے میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ بادشاہ نے اسی لیے ان کو زندان سے آزاد کر کے اپنے پاس بلا لیا۔

۲۔ فَلَمَّا جَآءَہُ الرَّسُوۡلُ: آپؑ نے آزاد ہونے سے انکار کیا اور قاصد سے فرمایا: اپنے مالک کے پاس واپس جاؤ اور ان سے پوچھو، ان عورتوں کا مسئلہ کیا تھا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نہیں چاہتے تھے کہ اپنی پیشانی پر ایک الزام کا داغ لیے شاہ کی معافی کے سہارے آزاد ہوں جائیں لہٰذا غیرت اور جوانمردی کا یہی تقاضا تھا کہ پہلے اس الزام سے آزاد ہو جائیں، اصل مجرم بے نقاب ہو جائے اور ان کی پاکدامنی ثابت ہو جائے، اس کے بعد فخر و اعزاز کے ساتھ زندان سے باہر قدم رکھیں۔

۳۔ اِنَّ رَبِّیۡ بِکَیۡدِہِنَّ عَلِیۡمٌ: آپؑ نے کسی پر الزام دھرنے کی جگہ حقیقت امر کے بارے میں تحقیق کرنے کی خواہش ظاہر فرمائی تاکہ امر واقع خود منکشف ہو کر سامنے آ جائے۔ چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے پروردگار پر بھرپور بھروسہ ہے جس کے سامنے سرخرو ہیں۔ اس لیے فرمایا: میرا رب تو ان کی مکاریوں سے باخبر ہے۔

۴۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے اخلاق کا کمال ہے کہ آپؑ نے عزیز مصر کی بیگم کا ذکر نہیں کیا جس نے اپنا جرم چھپانے کے لیے حضرت یوسف علیہ السلام پر الزام دھرا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی اصل مجرم تو وہی عورت تھی۔ شاید اس کا مقصد حتی الامکان عزیز مصر کی آبرو بچانا ہو کیونکہ وہ اس کے گھر میں رہے تھے اور نمک کھایا ہے۔

اہم نکات

۱۔ پاکدامن حقائق کا مشتاق اور مجرم حقیقت سے خوف کھاتا ہے۔

۲۔ جس کا معاملہ اللہ کے ساتھ درست ہو، وہ دنیا و آخرت میں سرخرو رہتا ہے۔

۳۔ غیرت مند انسان کے لیے الزام سے آزادی، زندان سے آزادی سے زیادہ اہم ہے۔


آیت 50