آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ یوسف

یہ سورۃ مبارکہ مکہ میں نازل ہوئی اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورۃ دفعۃً نازل ہوئی ہے۔

سبب نزول

روایت کے مطابق اس سورہ مبارکہ کا سبب نزول یہ تھا کہ مشرکین نے یہودیوں کے اشارے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے یہ سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کی وجہ کیا تھی؟ یہودیوں کو اس بات کا علم تھا کہ اہل عرب اس تاریخ سے بالکل بے خبر ہیں اس لیے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے اس کا درست جواب دینا ممکن نہ ہو گا۔ چنانچہ اس سورۃ میں بنی اسرائیل کے مصر کی طرف منتقل ہونے کے سارے واقعے کو اہم جزئیات کے ساتھ بیان کر کے یہ ثابت کر دیا کہ قرآن محمد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خود ساختہ نہیں ، وحی ہے۔ چنانچہ اسی سورۃ کی آیت نمبر۷ میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا:

لَقَدۡ کَانَ فِیۡ یُوۡسُفَ وَ اِخۡوَتِہٖۤ اٰیٰتٌ لِّلسَّآئِلِیۡنَ﴿﴾

بتحقیق یوسف اور اس کے بھائیوں (کے قصے) میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ پوچھنے والوں کے جواب میں نازل ہوئی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ بھی واضح ہوا کہ سورۃ یوسف میں رسول اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برحق ہونے پر چند ایک معجزات موجود ہیں : اٰیٰتٌ لِّلسَّآئِلِیۡنَ ۔

حضرت یوسف، حضرت یعقوب علیہما السلام کے بیٹے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اور بن یامین ایک ماں کے بطن سے تھے۔ باقی دوسری بیویوں کے بطن سے۔

جس زمانے میں حضرت یوسف علیہ السلام مصر پہنچے تھے، مصر پر عربی النسل بادشاہوں کی حکومت تھی اور مقامی نہ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل کو ان بادشاہوں نے پذیرائی دی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۟﴿۱﴾

۱۔ الف لام را، یہ واضح کتاب کی آیات ہیں۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا تاکہ تم سمجھ سکو۔

تشریح کلمات

قران:

اصل میں اس کے معنی ہیں ’’پڑھنا‘‘۔ قرآن اپنی فصاحت و بلاغت، معانی و مطالب اور اسلوب کلام کی بلندی کی وجہ سے بہ کثرت پڑھا جائے گا۔ اس لیے اسے قرآن کہا ہے۔ چنانچہ آج یہ کتاب دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ: قرآن کو کتاب مبین اس لیے کہتے ہیں کہ یہ کتاب ماورائے محسوسات ملکوتی مطالب کو اس طرح بیان کرتی ہے کہ محسوس پرست انسان کے فہم میں بھی آ جائے۔ عربی زبان میں اسے نازل کر کے سب سے پہلے ان مطالب و تعلیمات کو ایک ناخواندہ بدو غیر مہذب قوم کو سمجھایا اور ایسے مقام میں یہ کتاب پیش کی جہاں کبھی بھی علمی سرگرمی نہیں رہی اور وہاں سے اس کتاب نے پوری دنیا کو تہذیب و تعلیم کی راہ دکھائی۔

۲۔ لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ: عقل کو دعوت دینا قرآن کی حقانیت کی دلیل ہے ورنہ جن کی دعوت حق پر مبنی نہیں ہے وہ عقل اور عقل والوں سے اجتناب کرتے ہیں کہ کہیں ان کا راز فاش نہ ہو جائے۔

اہم نکات

۱۔ قرآنی مطالب واضح اور قابل فہم ہیں : الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۔۔۔۔

۲۔ قرآن اندھی تقلید کی نہیں ، تعقل کی دعوت دیتا ہے: لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۔


آیات 1 - 2