آیت 123
 

وَ لِلّٰہِ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اِلَیۡہِ یُرۡجَعُ الۡاَمۡرُ کُلُّہٗ فَاعۡبُدۡہُ وَ تَوَکَّلۡ عَلَیۡہِ ؕ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۲۳﴾٪

۱۲۳۔ اور آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم صرف اللہ کو ہے اور سارے امور کا رجوع اسی کی طرف ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسا کرو اور تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لِلّٰہِ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: کفار و معاندین سے جب کہا گیا کہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ جو کچھ کر سکتے ہو کرو پھر انجام کا انتظار کرو اور اہل اسلام کو بھی انتظار کے لیے کہا، اس کے بعد اس عمل اور انتظار کے انجام کے بارے میں فرمایا: انجام ان لوگوں کے حق میں ہو گا جن کا تعلق اس ذات کے ساتھ ہے جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم رکھتی ہے جب کہ ان کے معبود تو اپنی ذات کا بھی تحفظ نہیں کرسکتے۔ لہٰذا جن معبودوں پر ان کا بھروسہ ہے وہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔

۲۔ وَ اِلَیۡہِ یُرۡجَعُ الۡاَمۡرُ کُلُّہٗ: اور تمام معاملات کی بازگشت بھی اسی کی طرف ہے۔ اپنے اعمال و امور کا رجوع جس ذات کی طرف ہے کامیابی اسی سے ملنی ہے، ان بے شعور بتوں سے نہیں۔

۳۔ فَاعۡبُدۡہُ وَ تَوَکَّلۡ عَلَیۡہِ: پس اے رسولؐ! آپ کو بھی اسی ذات کی عبادت کرنی چاہیے اور اسی پر بھروسہ رکھنا چاہے۔

۴۔ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ: اور کسی کے عمل سے وہ غافل بھی نہیں ہے۔ لہٰذا کامیابی وہی ذات دے سکتی ہے جو انسان کے اعمال کی قریب سے نگرانی کر رہی ہے۔

سورہ کا آغاز توحید اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ سے اور اختتام بھی توحید فَاعۡبُدۡہُ پر ہوا جو اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے۔

اہم نکات

۱۔ عبادت اور توکل میں باہمی ربط ہے: فَاعۡبُدۡہُ وَ تَوَکَّلۡ عَلَیۡہِ ۔۔۔۔

۲۔ انجام بخیر اس ذات کے ہاتھ میں ہے جس کی طرف تمام معاملات کی بازگشت ہے۔


آیت 123