آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الاخلاص

اس سورۃ میں توحید خالص کا بیان ہے، اس لیے اس کا نام سورۃ الاخلاص ہے۔ اگرچہ روایات متضارب ہیں تاہم صحیح موقف یہ ہے کہ یہ سورت مکی ہے۔

مضمون: مختلف مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال ہوا کہ اپنے رب کی تعریف کریں آپ کا رب کون ہے؟ جواب میں یہ سورۃ نازل ہوئی۔ یہ سوال مکہ کے مشرکین نے کیا، مدینہ کے اہل کتاب نے کیا۔ ان میں سے ایک سوال کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ باقی مواقع پر سوال کے جواب میں یہ سورت پڑھ کر سنا دی جاتی۔

اس سورت کا مضمون توحید ہے۔ اس میں توحید باری کے سلسلے میں تمام جوانب کا بیان ہے:

الف: اللہ وہ یکتا ذات ہے جس میں دوہرے کا تصور نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کو لفظ اَحَدٌ سے بیان فرمایا۔

ب: اللہ کی ذات وہ یکتا موجود ہے جس کے ہاتھ میں کل کائنات کی تدبیر اور نظام ہے۔ اسی لیے کسی مطلب کی برآوری کے لیے صرف اور صرف اسی کی طرف وجوع کیا جاتا ہے۔ اگر کسی ذات کو وسیلہ بنایا جاتا ہے تو اس ما ذون وسیلہ کے ذریعے رجوع اللہ ہی کی طرف کرنا ہے۔ اس مطلب کو اَللّٰہُ الصَّمَدُ سے بیان کیا گیا ہے جس کے معنی مرجع و مأ وائے کل کے ہیں۔ یعنی کل کائنات اللہ کی محتاج ہے اور اللہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔

ج: اللہ اس سے پاک و منزہ ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ تمام کائنات کے ساتھ اللہ کی نسبت عبد و معبود، خالق و مخلوق کی ہے۔ اولاد کی نسبت دینا شان الٰہی میں انتہائی گستاخی ہے ۔ یہ گستاخی کتنی بڑی گستاخی ہے اس کا اندازہ سورہ مریم کی آیات ۹۰ ۔ ۹۱سے ہوتا ہے جن میں فرمایا:

تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا ﴿﴾ اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا ﴿﴾

قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں۔ اس بات پر کہ انہوں نے رحمن کے لیے فرزند (کی موجودگی) کا الزام لگایا ہے۔

اس مطلب کو لَمۡ یَلِدۡ سے واضح فرمایا۔

د: اللہ تعالیٰ قدیم ہے لہٰذا یہ تصور ممکن نہیں ہے کہ کوئی یہ بچگانہ سوال اٹھائے: ہر چیز کو اللہ نے پیدا کیا۔ اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ چونکہ اللہ کی ذات بذات خود موجود ہے۔ اس کا وجود کسی اور سے نہیں ہے۔ اس مطلب کو وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ سے بیان فرمایا۔

ھ: اللہ کی ذات وہ یکتا ذات ہے جس کا کوئی ہمسر نہیں ہو سکتا۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہو سکتا۔ اس مطلب کو وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ سے بیان فرمایا۔

فضیلت: سورۃ الاخلاص کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔ اس کے لیے یہ بات کافی ہے کہ احادیث میں اس مختصر مگر جامع سورۃ کو قرآن کے ایک تہائی کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

اخلاص و محبت: اس سورۃ المبارکہ کی فضیلت میں یہ بات اہم ہے کہ اس کی کثرت سے تلاوت کرنا اللہ کے ساتھ عشق و محبت کی علامت ہے اور اس شخص کو اللہ کی محبت کی سعادت حاصل ہوتی ہے جو اس سورۃ کی کثرت سے تلاوت کرتا ہے۔

چنانچہ کتاب التوحید میں مذکور ہے: عمرو بن حصین نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک مہم پر سردار بنا کر بھیجا ۔جب واپس ہوئے تو لوگوں سے پوچھا گیا تو لوگوں نے کہا: سب بخیر ہے۔ صرف یہ کہ علی (علیہ السلام) نے ہمیں ہر نماز قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ کے ساتھ پڑھائی۔ اس پر علی (علیہ السلام) سے پوچھا تو علی (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا: لحبی لقل ھو اللہ۔ قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ سے مجھے محبت ہے اس لیے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ما احببتھا حتی احببک اللہ۔

جب تک اللہ نے آپ سے محبت نہیں کی آپ نے اس ( قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ ) سے محبت نہیں کی۔

تھوڑے فرق کے ساتھ یہی روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے منقول ہے مگر اس میں حضرت عائشہ نے حضرت علی علیہ السلام کا نام لیے بغیر حدیث بیان کی ہے اور حضرت علی علیہ السلام کے اسم گرامی کی جگہ ’’ایک شخص‘‘ کہا ہے۔

اس حدیث کے آخر میں ہے: اخبروہ ان اللہ تعالیٰ یحبّہ۔ اسے بتا دو اللہ تعالیٰ آپ سے محبت کرتا ہے۔

واضح رہے: آج بھی بہت سے لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام کا محبوب خدا ہونا گراں گزرتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾

۱۔ کہدیجئے : وہ اللہ ایک ہے ۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ: کہدیجیے۔ اس کا مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے۔ روایات کے مطابق مشرکین یا علمائے یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ جس یکتا رب کی طرف آپ ہمیں دعوت دے رہے ہیں اس کا وصف بیان کریں وہ کیسا ہے؟ اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔

۲۔ ہُوَ: اکثر مفسرین لفظ ہُوَ کو ضمیر شان قرار دیتے ہیں یعنی ہُوَ کا لفظ ’’بات یہ ہے‘‘، ’’واقعہ اس طرح ہے‘‘ کی جگہ ذکر کرتے ہیں۔

بعض دیگر مفسرین اس کا مرجع اللہ کے بارے میں سوال کرنے والوں کے کلام میں تلاش کرتے ہیں۔ ہُوَ: جس ذات کے بارے تم سوال کرتے ہو وہ اللہ ہے۔

بعض اہل عرفان اس ضمیر کا مرجع انسانی فطرت میں موجود ذات کو قرار دیتے ہیں۔ شاید ان کی نظر اس بات پر ہو کہ اللہ کی ذات اس صفحۂ گیتی میں سب سے عیاں ہے۔ چنانچہ مروی ہے حضرت علی علیہ السلام اللہ کی ذات کے بارے میں فرماتے ہیں:

وَ اَبْیَنُ مِمَّا تَرَی الْعُیُونُ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ خ ۱۵۵)

تیری ذات ان چیزوں سے بھی واضح تر ہے جن کو آنکھیں دیکھ لیتی ہیں۔

۳۔ اللّٰہُ: یہ وہ لفظ ہے جس سے ہر ضمیر اور ہر وجدان واقف ہے حتیٰ مشرکین سے بھی جب پوچھا جاتا ہے: بتاؤ! تمہارا خالق، رازق اور آسمانوں اور زمین کا خالق کون ہے تو وہ بھی کہتے ہیں: اللہ ہے۔

اَحَدٌ: یکتا ہے۔ ذات میں یکتا، ربوبیت میں یکتا، خالقیت میں یکتا، رازقیت میں یکتا، ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے۔ تدبیر کائنات میں یکتا ہے۔ ہر اعتبار سے یکتا ہے۔

مفسرین کہتے ہیں احد اور واحد میں فرق ہے۔ واحد اس ایک کو کہتے ہیں جس میں کثرت پائی جائے۔ یعنی واحد کے بعد اثنین، ثلاث، اربع ہو سکتا ہے اور اس ایک کو بھی واحد کہتے ہیں جس میں کثرت کا شائبہ موجود ہے۔ جیسے ایک قوم، ایک قبیلہ، ایک دنیا، ایک عالم مگر اَحَدٌ اس قسم کی کثرت قبول کرنے کی جگہ استعمال نہیں ہوتا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کو جب واحد کہا گیا تو اضافے کے ساتھ کہا گیا ہے: اِلٰہٌ وَّاحِدٌ یا الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ کہا گیا ہے۔ بغیر اضافے کے واحد نہیں، احد کہا گیا ہے۔

لہٰذا احد اسے کہتے ہیں جو کسی اعتبار سے بھی کثرت قبول نہیں کرتا۔

اللہ کی وحدانیت کے بارے میں چار قسم کے توحیدی درجات کے ہم قائل ہیں:

اول۔ توحید ذات: اللہ تعالیٰ کی ذات یکتا ہے جس میں کسی قسم کی کثرت کا شائبہ نہیں ہے۔ اس کے اجزا نہیں ہیں۔ یعنی وہ مرکب نہیں ہے کہ اجزا کی کثرت ہو جائے۔ اس کی ذات و صفات میں کثرت نہیں ہے کہ ذات اور صفات الگ ہو۔

دوم۔ توحید صفات: اللہ تعالیٰ کے صفات ذات سے جدا کوئی اضافی چیز نہیں ہیں جیسے انسان میں ہے کہ انسان کی ذات ہے اور علم نہیں تھا۔ بعد میں اس میں آگیا لیکن اللہ کی صفات عین ذات ہیں، زائد بر ذات نہیں ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں اللہ عالم ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے اللہ کو علم حاصل ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے اللہ اس ذات کو کہتے ہیں جس کی ذات علم سے عبارت ہے۔ بعنوان مثال: چار جفت ہے، چار ذات ہے، جفت اس کی صفت ہے۔ یہاں ذات و صفت ایک ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ایسے چار کا تصور کریں جو جفت نہ ہو بعد میں اسے جفت کی صفت مل گئی ہو بلکہ چار کہتے ہی اسے ہیں جو بذات خود جفت ہو۔ اسی طرح ہم اللہ کہتے ہی اسے ہیں جو بذات خود عالم ہو۔

مروی ہے حضرت امیر المؤمنین امام الموحدین اس جگہ فرماتے ہیں:

اَوَّلُ الدِّیْنِ مَعْرِفَتُہُ وَ کَمَالُ مَعْرِفَتِہِ التَّصْدِیقُ بِہِ وَکَمَالُ التَّصْدِیقِ بِہِ تَوْحِیدُہُ وَ کَمَالُ تَوْحِیدِہِ الْاِخْلَاصُ لَہُ وَکَمَالُ الْاِخْلَاصِ لَہُ نَفْیُ الصِّفْاتِ عَنْہُ لِشَہَادَۃِ کُلَّ صِفَۃٍ اَنَّہَا غَیْرُ الْمَوْصُوفِ وَ شَہَادَۃِ کُلِّ مَوْصُوفٍ اَنَّہُ غَیْرُ الصِّفَۃِ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خطبہ اول)

دین کی ابتدا للہ کی معرفت ہے۔ کمال معرفت اس کی تصدیق ہے۔ کمال تصدیق توحید ہے۔ کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے اور کمال تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے۔

اسی لیے قرآن میں کسی جگہ بھی اللہ کے لیے لفظ صفت یا صفات نہیں کہا چونکہ صفت کہنے میں صفت، موصوف دو کا تصور آ سکتا ہے بلکہ قرآن نے ان صفات کو اسماء الحسنی کہا ہے چونکہ اسم اور مسمیٰ دو نہیں ہیں۔

وَ لِلّٰہِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی فَادۡعُوۡہُ بِہَا۔۔۔۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۸۰)

اور زیبا ترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انہی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو۔

سوم۔ توحید افعال: اللہ تعالیٰ کے افعال میں کسی کی شرکت نہیں ہے۔ وہ خالق ہے تو یکتا، رازق ہے تویکتا رازق۔ حیات دہندہ ہے تو یکتا، حیات اور موت بھی صرف اسی کے ہاتھ میں۔ یعنی اللہ اپنے افعال میں کاملاً مستقل ہے، کسی کی بھی شرکت نہیں ہے جب کہ غیر خدا کسی کام میں مستقل نہیں ہے، محتاج ہوتا ہے۔ اللہ اپنی ربوبیت میں یکتا ہے، وہ یکتا قانون دہندہ ہے، وہ تدبیر کائنات میں یکتا ہے:

بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ۔۔۔۔ (۳۶ یٰسٓ: ۸۳)

اس کے ہاتھ میں ہر چیز کی سلطنت ہے۔

چہارم۔ توحید عبادت: عبادت اور بندگی صرف اللہ کی ہوتی ہے۔ ہم نے متعدد مقامات پر عبادت کی تعریف کا ذکر کیا ہے۔ یہ تعریف خود قرآن سے ماخوذ ہے۔ عبادت کی تعریف یہ ہے کہ کسی ذات کو خالق یا رب سمجھ کر اس کی تعظیم کی جائے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۲۱)

اے لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔

ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ فَاعۡبُدُوۡہُ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۰۲)

یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہر چیز کا خالق ہے لہٰذا اس کی عبادت کرو۔

ان آیات میں فرمایا: اپنے رب، اپنے خالق کی عبادت کرو۔


آیت 1