آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ المسد

اس سورۃ کا نام سورۃ میں مذکور پہلی آیت کے لفظ تَبَّتۡ سے ماخوذ ہے۔ اس سورۃ کو سورۃ مسد بھی کہتے ہیں

یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے اور روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورۃ بعثت کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی ہے۔

اس سورۃ کا مضمون بنی ہاشم کے ایک فرد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا، عبد العزی جس کی کنیت ابو لہب ہے، پر نفرین ہے۔ بنی ہاشم کا فرد ہونے کے باوجودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب و ایذا میں غیروں سے بھی آگے رہتا تھا۔ اس لیے اسے غیروں سے زیادہ رسوا کیا گیا اور اس پر نفرین اور اس کی مذمت قرآن کا حصہ قرار دے کر دائمی اور ابدی رسوائی کی سزا دی گئی۔

معاویہ نے حضرت عقیل سے ازراہ طنز کہا: آپ کا چچا ابولہب جہنم میں کس جگہ ہے؟ عقیل نے فی البدیہ جواب دیا: اگر تو جہنم میں داخل ہو جائے تو اپنی دائیں طرف دیکھ، وہاں ابو لہب کو اپنی چچی ام جمیل۔۔۔ کے ساتھ دیکھ لے گا۔ اذا دخلت النار انظر الی یمنیک تجدہ مفروشاً عمک ام جمیل۔

ابی بن کعب راوی ہیں: جو اس سورۃ کی تلاوت کرے گا، اللہ اسے اور ابو لہب کو ایک گھر میں جمع نہیں کرے گا۔ (مجمع البیان)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ ؕ﴿۱﴾

۱۔ ہلاکت میں جائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہو جائے۔

تشریح کلمات

تَبَّتۡ:

( ت ب ب ) خسارے یا ہلاکت میں جانا جیسے:

وَ مَا زَادُوۡہُمۡ غَیۡرَ تَتۡبِیۡبٍ﴿﴾ (۱۱ ھود:۱۰۱)

اور انہوں نے تباہی کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کیا۔

تفسیر آیات

۱۔ ابو لہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھا۔ اس کا نام عبد العزی بقولے عبد مناف تھا۔ وہ اپنی کنیت ابو لہب سے مشہور ہے۔

ابو لہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی میں ہر مقام پر پیش پیش رہتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعوت اسلام کے لیے کہیں تشریف لے جاتے تو یہ ان کے پیچھے جاتا اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سننے سے روکتا تھا۔ ابو لہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قریبی ہمسایہ تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گھر میں بھی چین سے نہیں رہنے دیتا تھا۔ ابو لہب کی بیوی ام جمیل (ابو سفیان کی بہن) رات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر خار دار جھاڑیاں پھینک دیا کرتی تھی۔

اس سورہ کے نازل ہونے کے چند سال بعد جنگ بدر میں قریش کے اکثر بڑے بڑے سردار قتل ہوئے تو ابولہب کو اس قدر دکھ ہوا کہ سات دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا۔ اسے متعدی قسم کی بیماری لگی تھی۔ اس لیے گھر والوں نے بھی اسے چھوڑ دیا۔ مرنے کے بعد بھی تین دن تک اس کی میت گھر میں پڑی رہی۔ بدبو پھیلنے لگی تو اس کے بیٹوں نے چند حبشیوں کو بلا کر اسے دفنا دیا۔

صرف ابولہب کا نام؟

ابولہب ہی واحد دشمن رسولؐ ہے جس کا نام لے کر قرآن میں ایک سورۃ نازل ہو ئی ہے جب کہ دوسرے دشمنوں نے ابولہب سے زیادہ نہیں تو کم دشمنی نہیں کی تھی۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ابو لہب کا تعلق بنی ہاشم کے خاندان سے تھا۔ اس خاندان کے لوگوں سے کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا کہ آئندہ برسراقتدار آ کر قرآن سے اس عار و ننگ کو مٹا دیں گے۔ بنی ہاشم کے لیے عار نہیں بلکہ فخر تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دین کے بارے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ اپنا سگا چچا کفر کرتا ہے تو اسے برملا دھتکار دیتے ہیں اور اگر کوئی غیر، حبشی غلام ایمان لے آتا ہے تو اسے قربت حاصل ہو جاتی ہے۔

چنانچہ اگر بنی امیہ کے کسی فرد کی قرآن میں اس طرح مذمت کی جاتی۔ مثلاً اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ﴿﴾ (۱۰۸ کوثر: ۳) میں بنی امیہ کے کسی فرد کا نام لیا جاتا تو آئندہ اپنی کی ہزارماہ کی حکومت میں وہ قرآن کے ساتھ کیا کچھ نہ کرتے۔

تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ: میں خسارے یا ہلاکت میں جائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ کا مطلب یہ ہے کہ ناکام رہے ابو لہب اپنے مقاصد میں۔ چونکہ انسان اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنا ہاتھوں سے زیادہ کام لیا کرتا ہے۔ ہاتھ ٹوٹنا، مقصد میں نامراد ہونا کے معنوں میں ہیں۔ چنانچہ چند سال گزرے تھے وہ ذلیل و خوار ہو کر مردار ہو گیا اور اس کے بعد اس کی اولاد اسلام میں داخل ہو گئی۔ اس کی اولاد قرآن کی تلاوت تو کرتی تھی اور اسے اپنے باپ پر لعنت بھیجنا پڑتی، اس سے زیادہ خواری کیا ہو سکتی ہے۔


آیت 1