آیات 1 - 3
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ النصر

نام سورہ آیہ اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ۔۔۔۔ سے ماخوذ ہے۔

مروی ہے حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے آباء سلام اللہ علیہم سے روایت کرتے ہیں: سورہ ہائے قرآن میں سب سے پہلے سورۃ اقرأ نازل ہوئی اور سب سے آخر میں سورۃ النصر نازل ہوئی ہے۔ یہ ان روایات سے متصادم نہیں ہے جن میں بعض آیات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ آخری آیت ہے چونکہ اس روایت میں سورۃ کا نہیں آیات کا ذکر ہے۔

اس سورۃ کو سورۃ تودیعُ یعنی الوداعی سورۃ کہا جاتا ہے۔

ابن عباس کی ایک روایت کے مطابق اس سورۃ کے نزول کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نعیت الی نفسی مجھے اپنی سنانی سنائی گئی ہے۔ یعنی میرے وصال کی خبر دی گئی ہے۔ لہٰذا زیادہ قرین واقع یہ بات ہے کہ یہ سورۃ، فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی جب کہ اکثر مفسرین کا موقف یہ ہے کہ یہ فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی ہے۔

مضمون: اس سورہ مبارکہ میں اسلام کی فتح و نصرت کی نوید ہے اور اس فتح و نصرت کا ثمر بھی مذکور ہے کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ اس طرح اسلام کے ایک دین کے طور پر روئے زمین پر نافذ ہونے کی خوش خبری ہے۔

فتح و نصرت ملنے پر یہ حکم ہے کہ اس عظیم کامیابی اور اللہ کی اس عظیم عنایت پر اللہ کی تسبیح کیا کریں۔ تسبیح کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سمجھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وصال کی دعوت ہے۔ اس لیے حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سورۃ کے نزول کے بعد کثرت سے تسبیح پڑھا کرتے تھے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾

۱۔ جب اللہ کی نصرت اور فتح آ جائے،

وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور آپ لوگوں کو فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیکھ لیں،

فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ اسۡتَغۡفِرۡہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ٪﴿۳﴾

۳۔ تو اپنے رب کی ثناء کے ساتھ اس کی تسبیح کریں اور اس سے مغفرت طلب کریں یقینا وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

بعض روایات کے مطابق یہ قرآن کا آخری سورہ ہے۔ اس صورت میں فتح سے مراد فتح مکہ نہیں ہو سکتی لیکن بعض دیگر روایات میں آیا ہے کہ اس سورہ کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو سال زندگی بسر فرمائی جیسا کہ مقاتل کی روایت ہے۔ (مجمع البیان)

اس روایت کے مطابق یہ سورۃ ۹ ہجری کو نازل ہوئی ہے۔ پھر بھی آخری سورۃ نہیں ہے۔ بہرحال روایات اس سلسلے میں بہت متضاد ہیں۔

۱۔ اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ: اس میں لفظ اِذَا مستقبل کے لیے ہے جیسے اردو میں لفظ ’’جب ‘‘ ہے اور آیت کا ترجمہ بھی یہی ہے: جب اللہ کی نصرت آ جائے اور فتح حاصل ہو جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی وہ فتح نصرت نہیں آئی۔

نیز فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ میں تسبیح و تحمید کا حکم بھی بتلاتا ہے کہ فتح و نصرت ملنے پر تسبیح کرو۔ لہٰذا یا تو یہ سورۃ، فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی ہے یا فتح سے مراد فتح مکہ کے بعد کی فتوحات مثلاً معرکۂ طائف و حنین ہیں جن کے بعد لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔

بیہقی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلایا اور اپنی وفات کے قریب ہونے کی خبر دی تو فاطمہ سلام اللہ علیہا روئیں۔ اس کے تھوڑی دیر بعد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا مسکرائیں۔ بعد میں وجہ پوچھی تو فرمایا: میرے بابا نے پہلے اپنی وفات کی خبر دی میں روئی۔ بعد میں جب فرمایا: اے فاطمہ! آپ میرے اہل بیت میں سب سے پہلے مجھ سے ملحق ہونے والی ہیں اس پر میں مسکرائی تھی۔ لیکن ترمذی کی روایت کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے سال میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ یہ بات کی تھی۔

امامیہ طریق سے صدوق نے ابن عباس سے روایت کی ہے: یہ گفتگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے پہلے بیماری کی حالت میں ہوئی تھی۔

ان روایات کے پیش نظر بعض مفسرین یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ فتح سے مراد فتح مکہ نہیں، فتح مکہ کے بعد کی فتوحات ہیں۔ چنانچہ نویں ہجری میں لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اسلام قبول کرنا شروع کیا۔

۲۔ وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ: چنانچہ فتح مکہ کے بعد دو سالوں میں جزیرۃ العرب مشرکین سے پاک ہو گیا۔ لہٰذا النَّاسَ سے مراد جزیرۃ العرب کے لوگ ہیں۔ یہاں کے متعصب ترین لوگوں کے اسلام میں داخل ہونے کے بعد اسلام کے پھیلنے میں رکاوٹ ختم ہو گئی۔

۳۔ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ: یہ آیت اِذَا کا جواب ہے کہ جب نصرت اور فتح آ جائے اور لوگوں کو فوج در فوج اسلام میں داخل ہوتا دیکھ لیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں۔ اس تسبیح کا حکم، عام حکم تسبیح سے ہٹ کر ہے اور ایک خصوصی حکم ہے۔ بعض اہل نظر روایات کی روشنی میں کہتے ہیں تسبیح کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام پہنچ جانے کی طرف اشارہ ہے۔

۴۔ وَ اسۡتَغۡفِرۡہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا : یہ سوال پیدا نہیں ہوتا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی قسم کا گناہ سرزد نہ ہوتے ہوئے استغفار کا حکم کیسے ہوا؟ چونکہ استغفار صرف گناہ کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اس احساس بندگی کے تحت استغفار ہوتی ہے کہ بندگی کا حق ادا نہ ہوا۔ چنانچہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے۔

ما عبدناک حق عبادتک و ما عرفناک حق معرفتک۔ (بحار الانوار۔۶۸: ۲۳)

ہم نے تیری عبادت اس طرح نہیں کی کہ عبادت کا حق ادا ہو جائے اور نہ ہی تیری معرفت اس طرح حاصل کی کہ معرفت کا حق ادا ہو جائے۔


آیات 1 - 3